
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا ماہانہ خسارہ 12 ارب روپے تک پہنچ گیا، وزارت خزانہ نے قومی ایئر لائن پی آئی اے قرض پر سود اور خسارہ برداشت کرنے سے انکار کردیا۔پی آئی اے نے کمرشل بینکوں سے حکومتی گارنٹی پر 260 ارب قرض لیا ہوا ہے۔ پی آئی اے ایف بی آر کو 1 ارب 25 کروڑ روپے ٹیکس ادا نہیں کر رہا اور سول ایوی ایشن کو ماہانہ 1 ارب سے زائد کی ادائیگی نہیں کر رہا۔قومی ایئر لائن کی ماہانہ آمدن 22 ارب اور اخراجات 34 ارب تک ہیں، پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 740 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔نگران وزیر خزانہ نے نجکاری ڈویژن اور پی آئی اے انتظامیہ سے نجکاری پلان مانگ لیا، پی آئی اے کی نجکاری فوری عمل میں لائی جانے کی تجویز ہے۔قومی ایئر لائن پی آئی اے کے قرض کا حجم اثاثوں کی مالیت کا 5 گنا ہے۔ پی آئی اے دنیا کا ایک بے مثال اور منافع بخش ادارہ ہوا کرتا تھا مگر اب یہ ادارہ ناقص پالیسیوں اور مفاد پرستوں کے ذاتی مفادات کی نذر ہو کر مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بدترین خسارے کے باوجود اس کی بہتری کے لیے کسی بھی دور میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ ہر دور میں اس کی نجکاری پر ہی زور دیا جاتا رہا۔ کسی قومی ادارے کا نقصان میں چلنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ اسے فروخت کر دیا جائے بلکہ اس کی بہتری کے لیے پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سٹیل ملز بھی ایک منافع بخش ادارہ تھا لیکن اسے بھی اللوں تللوں کی نذر کر دیا گیا۔ اب ان اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جس کے لیے گزشتہ سال قانون سازی بھی کی جاچکی ہے۔ جنھیں ان اداروں کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں وہ تو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر گئے جبکہ یہ قومی ادارے مسلسل خساروں میں ڈوبتے رہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ یا یہ ادارے چلانے والے نااہل تھے یا انھوں نے اداروں سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر دور میں خسارے میں چلنے والے ان قومی اداروں میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود سیاسی اور ذاتی خواہشات پر غیرقانونی بھرتیاں کی گئیں اور ان اداروں پر مزید بوجھ ڈالا گیا جس سے یہ ادارے مزید ڈوبتے رہے۔ وزارت خزانہ کا قومی ایئرلائن قرض پر سود اور خسارہ برداشت کرنے سے انکار کرنا یا خسارے کی وجہ سے اسے فروخت کرنے کا فیصلہ اس مسئلہ کا حل نہیں۔ پہلے تو ادارے کو ذاتی ادارہ سمجھ کر لوٹنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے، ان کا کڑا احتساب کیا جائے، چاہے اس میں بیوروکریٹس ملوث ہوں یا سیاست دان انھیں کڑی سزا دے کر نشانِ عبرت بنایا جائے۔ دوسرا، ان ادارں میں موجود افسر شاہی کی مراعات کم کی جائیں، انھیں پٹرول، بجلی، گیس کے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرنے کا پابند کیا جائے تو ان اداروں کاخسارہ کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔