خوش رنگ سب رنگ
کچھ وقت پہلے سب رنگ کہانیاں کی تیسری جلد بھی منظرِ عام پہ آگ ہے اور عنقریب چوتھی جِلد بھی آنے کو ہے۔ سب رنگ کہانیاں ان کہانیوں کے انتخاب پر مشتمل ہے جو سب رنگ ڈاجسٹ کی اشاعت کے تقریبا ساڑھے تین عشروں میں سب رنگ ڈاجسٹ میں شاع ہویں۔ سب رنگ کہانیاں کتب کا سلسلہ ہے اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سب رنگ کہانیاں کی تیسری جِلد بھی اپنی پہلی دو جِلدوں کی طرح سب رنگ ڈاجسٹ میں شاع ہونے والی کہانیوں میں سے چند کا مجموعہ ہے۔ ابھی تلک اس سلسلے کی تین کتب شاع ہو ہیں لیکن اندازہ ہے کہ مزید جِلدیں شاع ہوں گی۔ یوں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ سب رنگ ڈاجسٹ میں چھپنے والی تقریبا تمام ہی شان دار کہانیاں عشاقانِ سب رنگ کے تسکینِ ذوق کے لیئے کِتابی شکل میں محفوظ اور دست یاب ہوں گی۔ اپنی پہلی دو جِلدوں کی طرح یہ جِلد بھی مغربی ادب کے تراجم پہ مبنی ہے اور یہ کہنا تو قطعی غیر ضروری ہے کہ گزشتہ جِلدوں کی طرح اِس جِلد میں بھی کہانیوں کا اِنتخاب بہترین ہے اِس لِیئے کہ سب رنگ ڈاجسٹ میں ہمیشہ ہی بہترین مواد شاع ہوا خواہ وہ ملکی اور عِلاقا ادب کی کہانیاں اور افسانے ہوں یا مغربی اور غیر ملکی ادب کی کہانیاں۔ سب رنگ ڈاجسٹ کے اعلی معیار کی وجہ ہی یہ تھی کہ اِس کے مالک و مدیر شکیل عادل زادہ نے اپنے رِسالے میں شاع ہونے والی کسی تحریر کے معیار پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کِیا۔ اِسی لیئے سب رنگ ڈاجسٹ آج بھی عمدہ تحریریں پڑھنے والے لوگوں اور اعلی ادبی ذوق کے حامِل افراد کی پسند اور طلب ہے۔
ہر زبان کا ادب اس کا حوالہ ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب میں اس کے مقامی و علاقا ادب کے علاوہ غیر ملکی و غیر مقامی ادب کے تراجم کا بھی بہت بڑا حِصہ ہوتا ہے۔ ادب کا دامن وسیع ہی تب ہوتا ہے جب اس میں مقامی ماحول کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کی تحریریں شامل ہوتی ہیں۔ ملکی تحریروں کے ساتھ غیر ملکی تحریریں ادب کی خوب صورتی کو ک گنا بڑھادیتی ہیں اور اس طرح ادب کا مل سامنے آتا ہے وہ پڑھنے کے لطف کو افزوں تر کردیتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ ادب میں جب ملکی اور غیر ملکی ادب کے رنگ بھرپور طریقے سے شامل ہوتے ہیں تبھی ادب کی قوسِ قزح اپنے تمام خوب صورت رنگوں کی دلکشی اور رعنا کے ساتھ بھرپور طریقے سے جِھلملاتی ہے۔ یعنی باالفاظ دیگر، دوسری زبانوں کے تراجم ہی مقامی ادب کی کی وسعت اور کشادگی دامن کا باعث ہوتے ہیں۔
اردو دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں کہیں کم عمر زبان ہے لیکن پھر بھی اِس کے ادب کے خزانے میں خاصے قیمتی جواہر پائے جاتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل نہیں ہے۔ اِسے دو حِصوں میں بیان کِیا جاسکتا ہے۔ قدیم اردو ادب جِس کا آغاز انیسویں صدی کے اوال سے شروع سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک اگرچہ اردو ادب کی تاریخ کی ابتدا انیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے جب فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں کو اردو سکھانے کی غرض سے نہ صرف عربی فارسی کے کلاسیکی ادب کو اردو میں ترجمہ کیا گیا بلکہ قِصہ چہار درویش، باغ و بہار اور فسانہ عجاب جیسی تحریریں سامنے آیں اور اس زمانے کے رواج کے مطابق ماورا اور غیر حقیقی کہانیاں پسند کی جاتی تھیں۔ اس وقت عربی اور فارسی زبان کے ادب کا ایک خاصا بڑا حِصہ اردو میں منتقل کِیا گیا۔
جیسے کہ قِصہ حاتم طا، داستانِ امیر حمزہ اور رستم و سہراب وغیرہ۔
کچھ تحریریں ترجمہ در ترجمہ تھیں جیسے کہ الف لیلہ.
اردو ادب کا دوسرا دور کہ جِسے اردو ادب کا جدید دور کہیں، یہ دور انیسویں صدی کے شروع سے بیسویں صدی کے وسط تک رہا پھر ادب میں تبدیلی کی لہر آ اور کچھ تحریکوں کے زیر اثر اردو ادب کے جدید دور کا آغاز ہوا جو وسطِ صدی سے لے کر اب تک ہے۔ اس دوران اگرچہ ادب میں خاصے تجربے بھی ہوئے لیکن ایک چیز جو شروع سے اب تک ادب میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہے اور پہلے کی طرح آج بھی مستحکم ہے، وہ ہے ترجمہ۔
ترجمے کے باب میں ڈاجسٹوں کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔ اگرچہ ڈاجسٹ اپنے مواد اور قارین کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں لیکن ایک بات جو قریب قریب سب میں مشترک رہی ہے وہ ہے غیر ملکی ادب کے تراجم۔ یہ ڈاجسٹوں کی مجبوری بھی رہی کیوں کہ انھیں شاع کرنے کے لیئے جس حد تک مواد درکار تھا وہ سب اردو ادب میں اس مقدار میں میسر نہیں تھا چناں چہ غیر ملکی ادب کے تراجم کو بھی ڈاجسٹوں میں جگہ دی جاتی رہی۔ اس سے ایک فادہ جو ہوا وہ یہ کہ مشرق و مغرب دونوں کے ادب کے تراجم اردو زبان کے قارین کو پڑھنے کو ملے اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے قارین جو بوجوہ دیگر زبانوں کے ادب ک مطالعہ نہیں کرسکتے تھے انھیں بھی وہ اپنی ہی زبان میں پڑھنے کو میسر آیا۔ بڑے بڑے ناموں نے جیسے ایڈگر ایلن پو، ٹالسٹا، کافکا، آرتھر کانن ڈال، موپساں اور ارنسٹ ہیمنگوے وغیرہ جیسے بہترین کی کہانیوں کے تراجم شاع ہوئے اور پڑھنے والوں میں خاصے پسند کِیئے گئے۔
شاید اس کا سبب یہ ہو وہ ایک الگ معاشرت اور مختلف طرزِ حیات سے روشناس کرواتے تھے اور پڑھنے والا خود کو ایک الگ دنیا میں محسوس کرتا تھا۔ ویسے تو کم و بیش سبھی ڈاجسٹ تراجم شاع کرتے تھے لیکن سب رنگ ڈاجسٹ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ اِس میں شاع ہونے والی ترجمہ کہانیوں کی زبان و بیان اور لب و لہجہ ایسا سلیس، بامحاورہ اور رواں ہوتا تھا کہ ترجمے پہ طبع زاد کا گماں ہوتا تھا۔ یہ ہی اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ آج بھی باذوق قارین اور مطالعے کے شاقین میں سب رنگ ڈاجسٹ کی پسندیدگی عروج پر ہے اگرچہ اِس کی اشاعت کو معطل ہوئے زمانہ ہوا۔
شروع سے ہی ڈاجسٹوں میں تقریبا نصف صدی سے زاد وقت یا یوں کہہ لیجیئے قریب چھ سات عشروں سے ڈاجسٹ، مطالعے کے شوقین افراد کے ذوق کی تسکین کررہے ہیں اِس عرصے میں بلامبالغہ سینکڑوں رِسالوں کا آغاز ہوا اور ان میں سے درجنوں ہمیشہ ہمیشہ کے لِیئے منظر سے غاب ہوگئے اور آج ان میں سے بیشتر رِسالوں کے نام بھی عوام کے حافظے میں نہیں ہیں لیکن یہ اعزاز فقط سب رنگ ڈاجسٹ کو ہی حاصل ہے کہ وہ اپنی اشاعت ختم ہونے کے تقریبا ڈیڑھ عشرہ گزر جانے کے باوجود بھی گردش میں ہے۔ کِتابوں رِسالوں کے اسٹالز پر آج بھی اِس رِسالے کی مانگ ہے۔ یہ ڈاجسٹ اب بھی قارین کی اولین پسند ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس ڈاجسٹ میں چھپنے والی ہر تحریر خواہ وہ طبع زاد ہوتی یا ترجمہ، ہوتی بہت اعلی درجے کی تھی۔ ایسی شاہ کار تحریروں کا کسی رِسالے میں شاع ہونا ان قارین کی خوش قِسمتی ہی کہلا جاسکتی ہے جو صحیح معنوں میں ایسی اعلی تحریریں پڑھنے کے شاق ہوتے ہیں۔ سب رنگ ڈاجسٹ میں بھی دیگر ڈاجسٹوں کی طرح غیر ملکی ادب کا خاصا مواد شاع ہوتا تھا۔ سب رنگ ڈاجسٹ میں جس قدر معیاری تراجم شاع ہوئے ان کی مِثال مِلنا مشکل ہے لیکن بات یہ ہے کہ ڈاجسٹوں کا معاملہ اخبارات سے کسی قدر مِلتا جلتا ہے۔ ہر روز شاع ہونے والے اخبارات اور ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی یا سالانہ بنیاد پر شاع ہونے والے رسال و جراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے ایسی مطبوعات جلد ہی کسی گوشے میں رکھ دی جاتی ہیں اور مزید کچھ وقت گزرنے کے بعد حافظے سے محو بھی ہوجاتی ہیں جب کہ اِس کے برعکس کِتاب کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ن اور تروتازہ رہتی ہے۔ غالبا یہ ہی بات سب رنگ ڈاجسٹ کے عاشقِ صادق جناب حسن رضا گوندل کے ذہن میں تھی اور انھوں نے سب رنگ کی کہانیوں کو مختلف عنوانات کے تحت جمع کرکے کِتابی صورت میں شاع کرنے کا بِیڑہ اٹھایا اور بہت دِل جمعی سے اپنے اِس ارادے کو عملی جامہ پہنایا۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود کچھ ہی عرصے میں انھوں نے اپنے اس دیرینہ خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا جو بہت نوعمری سے ان کی آنکھوں میں بسا ہوا تھا یہ خواب تو نجانے کِتنے لوگوں کی آنکھوں میں بسا ہوا ہوگا لیکن اِس کو تعبیر دینے کا اعزاز حسن رضا گوندل کے حِصے میں آیا۔ جیسا کہ جاذب قریشی نے کہا تھا کہ
نجانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ اک خواب کہ ہم جِس کے انتظار میں ہیں
ان گنت آنکھوں کے خواب کو تعبیر کی منزل تک پہنچانے والے حسن رضا گوندل کی اِس بیلوث اور مخلصانہ کاوش کے لیئے ان کی جِس قدر بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ اب ہم ان کی اگلی کِتاب کے منتظر ہیں دیکھیں تو وہ سب رنگ ڈاجسٹ کے خزانے سے مزید کیا نوادر لے کر آتے ہیں۔