ہفتہ ‘ 10؍ صفر‘ 1443ھ‘ 18؍ ستمبر2021ء
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استعفے پر کبھی بات نہیں کی: اسد عمر
عوام بھی کیا سادہ ہیں، کنٹینر اور ڈی چوک کے بیانات و خطابات یاد دلانا شروع کردیتے ہیں ، حالانکہ وہ اور دن تھے، آج اور ہیں۔ ویسے بھی ہماری سیاسی تاریخ میں ایسی روایت کہاں کہ اگر کوئی شخص اپنی وزارت، صدارت، عہدے یا منصب کے ساتھ انصاف نہ کرے تو استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے۔ یہاں تو ڈھٹائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ’’ استعفیٰ کیوں دیں، فضائی حادثہ یا ٹرین حادثہ متعلقہ وزیر نے تو نہیں کرایا‘‘ویسے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ’’اخلاقی‘‘ طور پر بھی اسد عمر کے استعفے کا جواز نہیں بنتا۔ خواہ انہوں نے اس سے پہلے کئی بار کہا بھی ہو کہ ’’پٹرول مہنگا ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔‘‘ اب ان کے پاس نہ تو پٹرولیم کی وزارت ہے اور نہ ہی خزانہ کی، اب تو وہ منصوبہ بندی کے وزیر ہیں اس لئے اسد عمر کا مستعفی ہونا بنتا ہے نہ اس سے پٹرول سستا ہوگا خواہ اسد عمر تو کیا، پوری کابینہ ہی استعفیٰ کیوں نہ دیدے کیونکہ جب ایجنڈا ہی یہ دے کر بھیجا گیا ہو کہ لوگوں کا جینا کس طرح دشوار کرنا اور مرنا کس طرح آسان بنانا ہے تو پھر ماضی میں کہی باتیں بھی یاد نہیں رہتیں، وعدے وفا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلی یا آخری بار تو نہیں بڑھیں اس لئے اسد عمر سمیت پوری وفاقی کابینہ کو ثابت قدم رہنا ہوگا اور باقاعدہ ایک بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی وزیر، مشیر مستعفی نہیں ہوگا، البتہ ندیم بابر کیطرح کا ’’امپورٹڈ‘‘ مشیر اگر جانا چاہے تو بے شک چلا جائے کیونکہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وزیر مستعفی ہونے لگے تو ہر پندرہ دن بعد نیا وزیر لانا پڑے گا، پھر اپنی کارکردگی، نتائج اور انجام دیکھ کر کوئی وزارت قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ اس لئے اسد عمر کی بات مان لی جائے اور بقول پروین شاکر…ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
٭٭٭٭٭٭
مظفرگڑھ میں ڈی ایس پی اور سی ای او ہیلتھ کو بھتے کی پرچیاں موصول
عربی زبان کی ضرب المثل ہے کہ ’’اپنے کتے کو مکھن کھلا کھلا کے موٹا کر کہ تجھے ہی کاٹ ڈالے‘‘۔ لگتا ہے مظفرگڑھ میں بھتہ خوروں کو فری ہینڈ دینے کا خمیازہ اب پولیس کو بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ دو مختلف نوعیت کے افسروں ڈی ایس پی صدر محمد فاروق اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او)ہیلتھ ڈاکٹر مہر اقبال کو 50، 50 لاکھ کی پرچیاں بھیج کر بھتہ خوروں نے بتا دیا ہے کہ مفادات پر سودے بازی ہوگی نہ اصولوں پر سمجھوتہ ہوگا، بھتہ وصولی کا ہدف اگر ’’قانونی ذرائع‘‘ سے پورا نہیں ہوگا تو پھر ڈاکٹر کے ساتھ ڈی ایس پی کو بھی پرچی بھیج کر ہدف پورا کیا جائے گا ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ڈاکٹر کے ساتھ ڈی ایس پی کو 50 لاکھ کی پرچی محض خانہ پری اور امن و امان کی ’’بہترین صورتحال‘‘ کا تاثر دینے کیلئے بھیجی گئی ہو کہ ’’قانون سب کے ایک جیسا ہے خواہ کوئی ڈی ایس پی ہو یا ڈاکٹر۔‘‘یہ بھی ممکن ہے کہ ڈی ایس پی یا ڈاکٹر کی ایک دوسرے کیخلاف شرارت نہ ہو، بہرحال ڈی ایس پی سٹی نصر بخت خان جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقات کررہے ہیں۔ دیکھتے ہیں تحقیقات کب مکمل ہوتی ہیں، ایسا نہ ہو دوسری قسط وصول کرنے کیلئے بھتہ خوروں کی پرچیاں ڈی ایس پی اور ڈاکٹر کو موصول ہوجائیں اور ادھر صرف تحقیقات ہی مکمل ہورہی ہیں کیونکہ بھتہ خور بھی جانتے ہیں کہ…؎
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
٭٭٭٭٭٭
پاکستانی رکشے میں جمائما کی دلچسپی
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مختلف انواع و اقسام (یعنی رنگ ونسل) کے رکشے سڑکوں پر ’’دندناتے‘‘پھرتے ہیں، ماضی کی نسبت موجودہ رکشے بڑے نئے نویلے ہیں۔ رکشے سفری سہولتوں کے ساتھ کئی قسم کی ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں، رکشوں کے پیچھے جذباتی ، انقلابی، عشقیہ، دردوالم سمیت ہر قسم کا شعری و نثر ادب پڑھنے کو ملتا ہے، آج کل زیادہ تر رکشوں کے پیچھے کئی اشتہاری قسم کے فلیکس آویزاں ہوتے ہیں۔ یقیناً جمائما نے پاکستان میں گزارے لمحات کے دوران رکشوں کی ایسی ثقافت کا مشاہدہ کیا ہوگا اسی وجہ سے ان کو اشتیاق پیدا ہوا ۔انہیں لندن میں اپنی ایک فلم کیلئے پاکستانی ساختہ رکشے کی ضرورت ہے اور انہوں نے ایک ٹویٹ میں لندن میں مقیم پاکستانیوں سے کہا ہے کہ ایسے رکشے کی تلاش میں مدد کریں۔ ویسے پاکستان بھر میں چلنے والے رکشوں پر بالعموم اور لاہور میں چلنے والے رکشوں پر بالخصوص سیاسی حالات پر بے لاگ تبصرہ ہوتا ہے آج کل رکشوں پر تحریر ہوتی ہے کہ ’’آیا مزہ تبدیلی دا‘‘ ’’ہن مزے گھن تبدیلی دے‘‘ سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اس لئے جمائما کو چاہئے کہ کسی ایسے رکشے کو ہی فلم میں کاسٹ کریں کہ ہر فلم بیں ’’رہ ِیار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا‘‘ والا لطف اٹھائے۔
٭٭٭٭٭
امریکی صدر پریس کانفرنس میں آسٹریلوی وزیراعظم کا نام بھول گئے
’’بھولا پن‘‘ بڑے لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ منصب کے لحاظ سے بڑا ہو یا شخصیت کے اعتبار سے غیرمعمولی پہچان رکھتا ہو ایسے لوگوں کو ہمیشہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جوبائیڈن سے پہلے کے امریکی صدور کی بے مروتی اور بے رخی کے واقعات بھی سپر پاور کے صدر کی بالادستی کی عکاسی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر جوبائیڈن اگر آسٹریلوی وزیراعظم کا نام بھول گئے ہیں اور سہ فریقی دفاعی معاہدے کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران انہیں ’’فیلو ڈائون انڈر‘‘ کہہ گئے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ اس کو معمر ہونے کا سبب کہا جاسکتا ہے کیونکہ حافظے اور یادداشت غریب ملکوں کے غریب عوام کا مسئلہ ہوتا ہے۔ لگتا ہے جوبائیڈن بھول چوک کا شکار نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے جان بوجھ کر ’’فیلو ڈائون انڈر‘‘ کہا ہے کیونکہ جنوبی نصف کرہ میں انتہائی نیچے واقع ہونے پر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو ’’ڈائون انڈر کنٹریز‘‘ کہا جاتا ہے جوبائیڈن نے نے اسی لئے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا ہوگا کہ…؎
اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے
جھوٹھی موٹھی دا پالیا ای شک وے
تے ساڈے ول تک سجناں
٭٭٭٭٭