لندن کی یادیں اور’’ ولایت نامہ‘‘
راقم پانچ سال اوٹاوہ کینیڈا میں جلاوطن رہا۔ 1985 میں جب مارشل لا اٹھا لیا گیا تو میں نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا-1986 میں اپنی فیملی کو براہ راست پاکستان روانہ کر کے میں لندن پہنچا۔ میری خواہش تھی کہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہی پاکستان واپس آؤں مگر محترمہ نے مجھے روک دیا اور کہا کہ پاکستان میں آپ جیل میں بند رہیں گے جب کہ لندن میں آپ پارٹی کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ جب میری فیملی پاکستان پہنچی پولیس نے میرے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی اور اخباروں میں یہ خبر شائع کرائی کہ اگر میں پاکستان واپس پہنچا تو مجھے مختلف مقدمات میں گرفتار کر لیا جائے گا چنانچہ میں نے کچھ عرصہ کے لئے برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیا-میں اس وقت پی پی پی کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا مکمل اعتماد مجھے حاصل تھا ۔ میں نے لندن میں رہ کر سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں فعال اور متحرک کردار ادا کیا پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو سے مسلسل رابطے میں رہا۔ جب محمد خان جونیجو لندن کے دورے پر پہنچے تو پی پی پی برطانیہ نے احتجاج کا اعلان کیا -میں نے احتجاج کو منظم کرنے کے لیے پوری دلچسپی لی ۔ میرے رابطوں کی وجہ سے قابل ذکر تعداد میں پاکستانی احتجاج میں شریک ہوئے جس سے برطانیہ میں مقیم پیپلزپارٹی کے مقامی اور مہاجر لیڈر حیران رہ گئے۔ سیاست میں تنظیمی عہدیداروں اور کارکنوں کے درمیان رابطے بڑے اہم ہوتے ہیں-پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور اس وقت پی پی پی گلاسگو سکاٹ لینڈ کے صدر تھے۔ انہوں نے بڑی محبت اور شفقت سے مجھے سکاٹ لینڈ کے دورے پر بلایا یہ دورہ بڑا کامیاب رہا-جام صادق علی برطانیہ میں مقیم تھے ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ کینیڈا سے جب میں لندن پہنچا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے گھر میں واپس آگیا ہوں کیونکہ لندن میں کافی تعداد میں پاکستانی موجود تھے جن کے ساتھ ملاقاتیں رہتی تھیں ۔ پاکستان کے معروف ادیب اور شاعر محترم عارف افتخار لندن میں اردو مرکز کے سربراہ تھے۔ ان سے بھی یادگار ملاقاتیں رہیں۔ پاکستان کے نامور شاعر احمد فراز اور حبیب جالب ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی خورشید محمود قصوری نے بھی لندن کا دورہ کیا ان کے ساتھ بھی بڑی خوشگوار ملاقاتیں رہیں۔ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید‘ مصطفی کھر‘ قیوم بٹ‘ سردار مظہر علی خان بھی لندن میں تھے اور سیاسی سرگرمیوں کی رونق تھے-لندن کے قیام کے سلسلے میں یادیں تو بہت ہیں مگر میرا یہ کالم دراصل "ولایت نامہ" کے بارے میں ہے جسے پڑھ کر میرے ذہن میں لندن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ یہ کتاب ہر دل عزیز کالم نویس محترم طاہر جمیل نورانی کے منفرد اور معلوماتی کالموں پر مشتمل ہے جو نوائے وقت کے ادارتی صفحہ پر میرے ہمسائے ہیں ۔ وہ طویل عرصے سے لندن میں مقیم ہیں مگر ان کے دل و دماغ میں اپنے وطن کی محبت آج بھی موجزن ہے جس کا اظہار ان کے کالموں میں نظر آتا ہے-وہ اپنے کالموں میں مختلف نوعیت کے انکشافات بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایک کالم میں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے حکم جاری کیا کہ جو لوگ بھی برطانیہ آئیں گے ان کو انگریزی لازمی طور پر سیکھنی پڑے گی اور جو لوگ نہیں سیکھیں گے ان کو ویلفیئر الاؤنس نہیں ملے گا۔ انھوں نے اپنے اس کالم میں تحریر کیا ہے کہ زندہ اور خوددار قومیں اپنی زبان کی شناخت کو ہمیشہ قائم رکھتی ہیں۔ اس سے بڑی قومی منافقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں دفتری زبان آج بھی انگریزی رائج ہے۔ قومی زبان اردو کے سلسلے میں انہوں نے اپنے تین چار کالم کتاب میں شامل کیے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو زبان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔وہ اپنے کالم" اردو زبان سے ناآشنائی" میں تحریر کرتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں مگر وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کی تہذیب و تمدن اور دینی اقدار زندہ ہوں ورنہ
سکوں کہیں بھی میسر نہیں ہے انساں کو
جنازے والے بھی کندھا بدلتے رہتے ہیں
قائد اعظم محترم طاہر جمیل نورانی کے آئیڈیل ہیں۔ ان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب میں دو تین کالم شامل کیے ہیں جو بڑے دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہیں۔ اپنے ایک کالم میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم کا معیار وہ نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ استاد کو وہ عزت نہیں دی جاتی جس کا وہ حقدار ہے۔ برطانیہ میں لائبریریوں کو بند کیا جارہا ہے حالانکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لندن کی لائبریریوں کو سالانہ52 ملین افراد استعمال کرتے ہیں۔40 ملین افراد سالانہ کتابیں پڑھنے کے لیے لائبریریوں سے گھر لے جاتے ہیں-انھوں نے پاکستان سے اپنی محبت کے اظہار کے لئے کئی کالم قلمبند کیے ہیں جن میں ایک کالم" ہماری پہچان آن شان اور ایمان پاکستان" دلچسپ ہے-پاکستان کے ریاستی اداروں کے زوال کی خبر پڑھ کر ان کا دل کڑھتا ہے اور وہ کالم لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں پی آئی اے کے زوال کا بڑا دکھ ہے اس کا شمار ایک زمانے میں دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا-انہوں نے اپنے ایک کالم میں ایک عمر رسیدہ انگریز افسر کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی جو کہتے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ نہیں کرتے حالانکہ ٹیلنٹ کے اعتبار سے پاکستانی قوم کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے-انہوں نے اپنے کالم میں حیران کن انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے علاقے کا ہاؤس آف کامنز کا نمائندہ وسائل کے باوجود سائیکل پر اور انڈر گراؤنڈ ٹرین پر سفر کرتا ہے تاکہ وہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہ سکے اور ان کے مسائل کے بارے میں آگاہ ہوتا رہے-انہوں نے پاکستان کی ارب پتی جمہوریت پر بھی نوحہ لکھا ہے۔پاکستان کے صحافیوں اور دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام دشمن سیاسی جمہوری اور معاشی نظام سے جنم لینے والے مسائل اور مصائب کا ماتم تو کرتے ہیں مگر سیاسی اور معاشی نظام میں جوہری تبدیلیاں لانے کے لیے توانا آواز بلند نہیں کرتے۔ میری محترم طاہر جمیل نورانی سے گزارش ہوگی کہ وہ برطانیہ کے جمہوری نظام کے بارے میں میں قسط وار کالم لکھیں تاکہ پاکستان کے عوام جان سکیں کہ جو جمہوری نظام پاکستان میں چلایا جارہا ہے وہ برطانوی جمہوری نظام سے بالکل مختلف ہے اور اسے حقیقی عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔اگر وہ یہ کام کریں تو یہ ان کی ملک کے لئے بڑی خدمت ہوگی اور اللہ تعالی نے ان کو اس کی صلاحیت بھی دے رکھی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ حیران کن انکشاف بھی کیا ہے کہ برطانیہ میں ہزاروں لوگ غربت کی وجہ سے فٹ پاتھوں اور اور سڑکوں پر سوتے ہیں۔ پاکستان کے سینئر صحافی محترم سعید آسی نے کتاب کے دیباچے میں معتبراور مستند گواہی دی ہے کہ طاہر جمیل نورانی ایک درد مند خالص پاکستانی ہیں جنہوں نے انگلستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے دیسی کلچرکو گزند تک نہیں پہنچنے دی اور اب بھی وہ اس کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ سینئر صحافی برادرم سہیل وڑائچ ‘ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی اور ڈاکٹر شفیق جالندھری نے بھی تعارفی نوٹ لکھ کر مصنف کی شخصیت کتاب کی افادیت کو سراہا ہے۔ یہ کتاب لاہور کے معروف اشاعتی ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے۔