شہر یار آفریدی سے ایک اتفافیہ ملاقات
شہر یار خان آفریدی پاکستان تحریک انصاف میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اس وقت پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کے سربراہ ہیں۔ اس سے قبل وہ وزیر مملکت برائے انسداد منشیات رہے ہیں۔ انکے پاس بطو ر وزیر مملکت وزارت داخلہ کا قلمدان بھی رہا۔ جب رانا ثنا اللہ کو اے این ایف نے ہیروئین کے کیس میں گرفتار کیا تھا اس وقت انسداد منشیات کی وزارت شہر یار آفرید ی کے پاس تھی۔ شہر یار آفریدی کا شمار تحریک انصاف کے ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو فرنٹ فٹ پر کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ شہر یار آفریدی سے لاہور میں اتفاقیہ مگر طویل نشست میرے مرحوم دوست اور اعلیٰ ظرف انسان شبیر اعوان کے والد صغیر اعوان کی وفات کے موقع پر ہوئی۔ شبیر اعوان سول سروس کا ایک جانا پہچانا نام تھا۔ وہ سول سروس میں رہ کر بھی ایک سوشل ورکر تھے۔ انکے دوستوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جو ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا پر جو جتنا مخلص اور قابل تعریف ہو وہ اتنی جلدی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اب ماشاء اللہ ان کا بیٹا شاہزیب اعوان ان کا مشن لے کر چل رہا ہے۔ شاہ زیب اعوان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں بھی اپنے والد شبیر اعوان کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
خیر، شہر یار آفریدی سے ہونیوالی طویل نشست میں ڈائریکٹر جنرل ایف ڈی اے ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم جو فیصل آباد میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے بیان کے مطابق نذر لطیف کے شانہ بشانہ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو پایۂ تکمیل پر پہنچانے میں مصروف عمل ہیں، اور وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب بھی موجود تھے۔ فرخ حبیب سے بھارتی پروپیگنڈا کی بات ہوئی تو بات امریکن لابنگ فرمز کی طرف جا نکلی۔ میں نے کہا، پاکستان کو بھی فرمز ہائر کر کے بھارت کا چہرہ دنیا میں بے نقاب کرنا چاہیے۔ فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ میرا لیڈر عمران خان جب تقریر کرتا ہے تو وہ دنیا میں وائرل ہوجاتی ہے اور پسند کی جاتی ہے اس لیے اربوں خرچ کرنے کی بجائے عمران خان کی تقریر یں ہی بھارت کا اصل چہرہ دنیا میں بے نقاب کر دیتی ہیں۔ جب شہریار آفریدی سے میں نے پوچھا کہ تحریک انصاف کی کارکردگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خود مختار ہو چکے ہیں۔ اس طرح پاکستان نہیں چل سکتا۔ صوبوں کو وفاق کے زیر انتظام لانا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام آباد ایک فیصلہ کرے، سندھ دوسرا فیصلہ کرے، پنجاب اس سے مختلف فیصلہ کرے اور خیبرپختونخوا کوئی اور ہی فیصلہ کریں۔ اس طرح تو ملک کی کوئی سمت ہی نہیں رہتی۔ جب تک پالیسی میں یکسوئی نہیں ہوگی نہ تو مسائل حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت پرفارم کر سکتی ہے۔ اسلام آباد ماں باپ ہے اور صوبے اسکے ساتھ بچے ہیں۔ اس وقت اسلام آبادکا عملی طور پر صوبوں پر کوئی اختیار نہیں۔ اگر اسلام آباد نے ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے ہیں تو صوبے اسلام آباد کے زیر انتظام ہونے چاہئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک ہم یہ مسئلہ حل نہیں کرینگے۔ بے اختیار اسلام آباد پورے ملک کی تقدیر کیسے بدل سکتا ہے؟ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کیلئے تحریک انصاف کیلئے دو تہائی اکثریت بہت ضروری تھی جس کے ذریعے ہم قوانین پاس کر سکتے تھے، آئینی ترامیم کر سکتے تھے۔ آج آپ دیکھیں مہنگائی کے ذمہ دار صوبے ہیں اور گالی وفاق کو پڑتی ہے۔
شہر یار آفریدی ناموسِ رسالتؐ کا تحفظ اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب اسلام حضرت محمد ﷺ پر مکمل ہوتا ہے۔ یہی ہماری حکومت کی پالیسی ہے۔ آپ دیکھیں کسی مسلمان ملک نے فرانس سے احتجاج نہیں کیا لیکن میرے لیڈر عمران خان نے حضرت محمد ﷺ کے خاکے بنانے پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ یو این میں جاکر تقریر کی اور انکے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔ عمران خان بین الاقوامی لیڈر ہے۔ انہوں نے کہا یہ درست ہے کہ ہم اقتدار میں تو ہیں مگر ہمارے پاس قوانین بنانے اور آئینی ترامیم کرنے کی طاقت نہیں۔ اسمبلی میں ہماری پارلیمانی طاقت بہت کم ہے۔ عمران خان ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں 35 سال میں اس ملک کے ساتھ لوٹ مار کی گئی وہاں اس گند کو صاف کرنے کیلئے عمران خان کو کم ازکم ایک مدت اور دینا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک کوئی کرپشن نہیں کی۔ اگر میں اپنی سرکاری گاڑیوں میں کبھی پرائیویٹ کام کیلئے جاتا ہوں تو اپنی جیب سے پٹرول ڈلواتا ہوں۔جب میرے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان تھا تو میں نے پاکستان کے ایک بہت بڑے بزنس ٹائیکون سے 33ہزار کنال زمین واگزار کرائی۔ ابوظہبی کے شیخوں کی زمین پر جو قبضہ تھا میں نے وہ واگزار کرا کے دی۔ بدلے میں انہوں نے مجھے عالیشان دعوت پر مدعو کیا اور کہا کہ آپ حکم کریں ہم آپ کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ میرے ملک میں مہمان ہیں، آپ بتائیں میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں جس کے جواب میں شیخ حیران پریشان ہوگئے۔انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں جو بھی ملتا ہے کوئی رینج روور مانگتا ہے تو کوئی کچھ اور، آپکے جواب سے حیرانگی ہوئی کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ا ور پھر میری ابوظہبی کے شیخ سے گہری دوستی ہو گئی۔ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ وطن کیلئے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔ جو بولتا ہوں سچ بولتا ہوں۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ حلال حرام کا فرق سمجھنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ جب میرے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان تھا بین الاقوامی این جی اوز کے حوالے سے ایسی شرمناک بریفنگ سننے کو ملی کہ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی تو وزیراعظم نے پوچھا، تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ میں نے کہا کہ این جی او کو رول بیک کروا دیں اور اپنے ملک سے نکال دیں، جس پر وزیراعظم نے میری بہت تعریف کی۔ اسکے بعد ہم نے تیس ہزار این جی اوز کو ملک سے نکال دیا تاکہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ میں آج بھی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رانا ثنااللہ والا کیس بالکل صحیح ہے۔ آج بھی وہ میرے ساتھ مناظرہ کرلیں یا عدالت میں ٹرائل ہونے دیں۔ سچ سامنے آجائیگا۔ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان کو سفارتی طور پر بہت کامیابی ملی ہے۔