پی آئی اے بمقابلہ’’ پی گئی اے‘‘
کہتے ہیں کہ کسی گاوں میں ایک دیہاتی نے اپنی بھینس کی دیکھ بھال اور دودھ نکالنے کے لئے ایک نوکر رکھ لیا،شروع میں تو نوکر نے ایمانداری سے کام کیا مگر چند دن کے بعد اس نوکر نے روش بدلی اور دودھ چوری سے بیچنے لگا ۔جب مالک کو احساس ہوا تو ایک دن نوکر سے دودھ کم ہونے کی وجہ پوچھی ۔ نوکر بولا کہ دودھ کٹی پی گئی اے (دودھ بھینس کی بچھڑی پی گئی ہے )۔مالک نے کٹی کو خود رسی کی مدد سے مضبو طی کے ساتھ بھینس سے دور باندھ دیا۔اگلی صبح پھر دودھ کم دیکھ کر مالک نے غصے سے پوچھا کہ آج تو کٹی بھینس سے دور تھی آج دودھ کم کیوں ہے ؟نوکر بولا کہ آج بھینس خود چل کر کٹی کے پاس چلی گئی تھی ۔ پاکستان کی قومی ائیر لائن کو بھی شائد ایسے ہی نوکر ملے جو سارا بجٹ اور منافع خود کھاتے رہے اور الزام ادارے پر دھرتے رہے کہ پی۔آئی ۔اے سارا منافع پی۔گئی ۔اے ۔ تابناک ماضی کے مخدوش مستقبل کی مثال اگرآ پ کو کہیں بھی نا ملے تو پی۔آئی ۔اے سے بہتر مثال آپ کو دنیا بھر میں چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔۱۹۴۶ میں اورئینٹ کے نام سے شروع ہونے والی ہوائی سروس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پی۔آئی ۔اے کے نام سے دنیا بھر میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ پی۔آئی ۔اے ہی وہ سروس ہے جس کو چین کی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی کمرشل پرواز کے اُترنے کا شرف حاصل ہے ۔وقت کے ساتھ پاکستان کی قومی ائیر لائن نے اپنی سفری سمتوں میں بھی اضافہ کیا بلکہ اس کے بیڑے میں کئی جدید جہاز بھی شامل کئے گئے ۔ پی۔آئی ۔اے کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بہتریں لوگ۔۔۔لا جواب سروس جیسا نعرہ پی۔آئی ۔اے کے لئے اسم بامسمی ٰ لگنے لگا۔اندرون یا بیرون ملک سفر کے لئے لوگ پی۔آئی ۔اے کو ترجیح دینے لگے ۔ پاکستان کی قومی ائیر لائن اپنے اثاثوں اور عملے کے اراکین میں اضافہ کرنے لگی۔ ملک بھر میں نئے ائیر پورٹس بننے لگے اور شائد یہ ہی وہ دور تھا کہ جب سالہاسال تک دنیا کی تمام سمتوں میں سفر کرنے والی پی۔آئی ۔اے اپنا قبلہ درست نا ہونے کے باعث پاکستانیوں کے لئے پی۔گئی ۔اے ثابت ہو نے لگی۔طیارے حادثوں کا شکار ہونے لگے ۔پروازوں کی آمدورفت میں تاخیر روز کا معمول بن گئی۔پائیلٹس اور دیگر عملے کی طرف سے ہڑتالوں نے پاکستان کی قومی ائیر لائن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔کبھی مسافروں کو ائیر پورٹ پر چھوڑکر اور کبھی مسافروں کے سامان کو چھوڑ کر پروازیں اپنی منزل کی طرف اُڑانیں بھرنے لگیں۔ ہر سال آڈٹ رپورٹس آتی رہیں اورادارے میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کی بھرتی،غیر پیشہ وارانہ لوگوں کو ادارے کی باگ ڈور دینا،سیاسی مداخلت،فیول اور دیگر معاملات میں بے ضابطگیوں اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل کی طرف ادارے کی توجہ مبذول کرواتی رہیں مگرپی۔(جاری ہے)