تعلیم کے نام پر تجارت اور بیروزگار ی
گزشتہ کئی دنوں سے دانتوں میں مسلسل تکلیف نے روزمرہ صحت مند زندگی کے نظام کو درہم برہم کیا ہوا ہے ۔ انسان کے جسم کا پورا نظام ایک قاعدے اور ڈسپلن کے مطابق چل رہا ہے ۔ انسانی جسم میں پیدا ہونے والی ذرا سی تکلیف بھی انسان کو اُس کی اصل اوقات یاد دلا کے رکھ دیتی ہے کہ انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے ۔ کہ ایک دانت میں درد ہونے کی وجہ سے بھی یہ بے کار اور دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے ۔ حکومت نے ۱۵ستمبر سے تعلیمی ادارے ایک طویل بندش کے بعد کھولنے کا اعلان کیا ۔ چھ ماہ کے طویل عرصہ بعد ہماری درس گاہیں آباد ہو ئیں ۔ اور خدا کرئے کہ موذی کرونا بھی کنٹرول میں رہے ہمارے مستقبل کے معمار اِس موذی سے محفوظ رہیں تعلیمی اداروں کے کھولنے سے تعلیم کے نام پر سالانہ اربوں روپے کمانے والے مافیا ز بھی حرکت میں آگئے ہیں اب جو طلباء ، طالبات انٹری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ تو دولت مندوں کے بچے اپنے والدین کی اندھی کمائی کے بل بوتے پر پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس کے نام پر داخل ہو جائیں گے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا ہمارا فوبیا بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے پرائیویٹ ڈاکٹر تعلیمی ادارے سالانہ اربوں روپے کماتے ہیں ۔ اِن تعلیمی اداروں کا اصل مقصد بے تحاشا دولت اکٹھی کرنا ہوتا ہے ۔ مجال ہے جو کسی غریب قابل طالب علم کو یہ مافیا ز مفت علیم دینے کا اعلان کر یں اِ ن تعلیمی اداروں کے مختلف ریٹس مقر ر ہوتے ہیں ۔ ۲۰ لاکھ سالانہ سے لے کر درمیانے درجے کے تعلیمی ادارہ کی فیس دس لاکھ سالانہ سنائی جا رہی ہے ۔ امیروں کے بچوں کے لیے پانچ سال کے لیے ایک کروڑ سے لے کر پچاس لاکھ تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جبکہ ہم جیسے سفید پوش طبقہ کے قابل اور ذہین بچوں کی اتنی زیادہ فیس سن کر اُمیدیں ہی دم توڑ جاتی ہیں ۔
اور یوں بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے ۔ ایف ۔ایس سی میں اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبا انٹری ٹیسٹ کی تیز دھار تلوار کی زد میں آکر دم توڑ دیتے ہیں ۔ 2002ئ میں شروع کرایا گیا یہ انٹری ٹیسٹ اب تک بڑے اکیڈمی مافیاز کو ارب پتی بنا چکا ہے ۔ اِن اکیڈمی مافیاز کا حرص اور ہوس اب مزید بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے ایک معروف تعلیمی ادارہ نے کرونا کی وجہ سے آن لائن کلاسز کے لیے ستمبر تک طلبا کے والدین سے 48000 ہزار روپے سے لے کر 32000 ہزار روپے تک وصول کیے اور اب جبکہ 15 ستمبر سے باقاعدہ کلاسز شروع ہونے کی 15000 ہزار میں ایک ماہ کی دوبارہ لی جا رہی ہے ۔ حالانکہ آن لائن کلاسز میں طلبا گھروں میں تیاری کرتے رہے ہیں ۔ جس سے کلاس رومز کے اخراجات اے سی اور پنکھوں کے بجلی کے بل بھی اِن اکیڈمی مافیاز کو ادا نہیں کرنے پڑے ۔
لیکن حرص اور ہوس ملاحظہ کیجئے ۔ کہ اب ایک ماہ کی باقاعدہ کلاسز کے لیے طلبا سے 15000ہزار روپے سے لے کر 12000ہزار روپے علیٰحدہ لیے جا رہے ہیں ۔ کہاں ہیں ہماری عدالتوں کے نگہبان اور کہاں ہیں خفیہ والے کہ جو اِن سے ذرا پوچھ گچھ تو کر لیں ظلم کی انتہا ہے جو سفید پوش والدین پر کی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بے روزگار ی عام ہو چکی ہے ۔ گذشتہ دنوں پنجاب میں 2500 سو لیکچراز کی بھرتی کے لیے پونے پانچ لاکھ بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں نے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں گذشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت کی نا قص معاشی اور تعلیمی پالیسوں کی وجہ سے بے روزگاری مزید بڑھ رہی ہے ۔ اور ہم جیسے سفید پوش والدین اپنے بچوں کو آگے تعلیم دلوانے کے لیے نہ جانے کن کٹھن معاشی مراحل سے گذر رہے ہیں ۔ حالات آگے مزید خوف ناک ہوتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن حکومت کو بنانے اور گرانے والوں کو اِس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ اُن کے مقاصد جتنی آسانی کے ساتھ موجود ہ حکومت پورے کر رہی ہے ۔ ماضی میں شاید ہی کسی اور حکومت نے کیے ہونگے اس لیے اگلے پانچ سال کے لیے بھی ملک میں صدارتی نظام کی شکل میں عمران خان کو بھی لا یا جا سکتا ہے ۔ لیکن زمین والوں سے بہت زیادہ مضبوط فیصلے آسمان والے کے ہوتے ہیں ۔