ہماری ایک بہادر بیٹی کا فاتحانہ معرکہ
نو اگست 2020ء کی رات کو لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے موٹروے پر ایک کار سوار خاتون کو جو حادثہ یا سانحہ پیش آیا اس پر پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے مہذب ، باغیرت اور انسانیت دوست ہر انسان کی آنکھ میں آنسو نظر آ رہے ہیں اور زبان پر درد و الم کے الفاظ رواں ہیں میں خود کو بھی ان کے ساتھ شریک پا رہا ہوں، مگر میری سوچ کچھ مختلف ہے، میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ بے غیرت دہشت گرد اور ہوس پرست درندے تاریک رات میں اپنے منہ کالے کر کے اور کار سمیت سب کچھ جلا کر خاکستر کر کے بھاگ جاتے تو دو سطر کی ایک خبر بھی شاید نہ بن سکتی! مگر یہ تو ایک تہلکہ مچ گیا ہے جس پر پاکستان سمیت پوری دنیا کے انسان آنسو بھی انڈیل رہے ہیں اور درد و الم سے لبریز آہیں بھی بھر رہے ہیں!
لیکن اگر آپ بھی میرے پاس کھڑے ہو کر میری سوچ میں شریک ہو جائیں تو آپ بھی حقیقت حال کو جان لیں گے اور مان لیں گے کہ یہ تو ہماری ایک بہادر، دور اندیش اور وقت کی آفت کی حقیقت کو بھانپ لینے والی عظیم خاتون کی قوت فیصلہ کا نتیجہ ہے! ایسے مواقع پر تو عموماً عورت کے ہاتھ پائوں بھی جواب دے جایا کرتے ہیں مگر یہاں تو ہمیں ایک بہادر، حوصلہ مند اور فیصلہ کن قدم اٹھانے والی عظیم عورت دکھائی دے جاتی ہے جو ہوس پرست، دہشت گرد اور درندہ صفت مانے ہوئے بدکاروں کو ایک ایسے چکر میں ڈالتی ہے کہ وہ اپنی ہوس پرستی کی آگ بجھانے اور ایک عورت سے نقدی اور زیور ہتھیانے کے بعد بھاگنے کے سوا کچھ اور بات سوچ بھی نہیں سکتے! یہ نتیجہ تھا اس خوف اور رعب کا جو ایک بہادر اور حوصلہ مند خاتون کے فاتحانہ رویہ سے ان ’’بچونگڑے ہوس پرست درندوں‘‘ پر طاری ہو گیا تھا!
یہ خاتون اصل میں لاہور کی بہادر بیٹی ہے اور گوجرانوالے کے پہلوانوں کی بہو ہے، مگر یہ بیٹی تو ہم سب کی ہے! ہم سب کا فرض یہ ہے کہ ہم اس عظیم خاتون کے فاتحانہ معرکہ کو دیکھیں اور اسکی قدر کریں، میں تو اپنی اس عظیم اور بہادر بیٹی سے یہ کہوں گا بلکہ اسے نصیحت کروں گا کہ وہ بے شک پردے میں رہے لیکن ہر قسم کے احساس کمتری کو اسی طرح ٹھکرا دے جس طرح وہ ان ہوس پرست درندوں کو اپنے بے مثال حوصلے اور درواندیشی، بروقت فیصلہ کن اقدامات کر کے ٹھوکر مار کے فاتحانہ معرکہ سر کر کے آئی ہے! وہ شکست کھا کر بے بس نہیں ہوئی! ہم سب کو اس حوصلہ مند اور بہادر بیٹی کو شاباش دینا چاہئے ، زبانی یہ اعلان ہی سہی کہ ہم اس بہادر، حوصلہ مند اور اس فاتحانہ معرکہ میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے تاریک رات میں اور سنسان موٹروے پر بھی گھبرانے یا حوصلہ ہارنے کے بجائے آخری وقت تک مقابلہ پر ڈٹی رہی ہے، اس نے اپنی زندگی بھی بچائی ہے اور اپنے معصوم بچوں کی جانیں بھی بچا لیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ناکام اور نامراد مانے ہوئے عادی دہشت گرد اور ہوس پرستی کے خوگر تو میدان سے بھاگ نکلے ہیں مگر ہماری یہ بہادر بیٹی ہولناک تاریکی اور سنسان تاریک سمندر کی طرح لہلہاتی ہوئی سڑک پر بھی اپنے حملہ آوروں کو پکڑنے ، ناکامی اور نامرادی کے شرمناک انجام تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے! ہمارا اب اولین فرض اور غیرت کا فوری تقاضا یہ ہے کہ ان غیر معمولی ظلم اور بے حیائی کے مرتکب ہوس پرستوں کو سزا دے دینے کیلئے پہلے قرآن کریم سے پوچھیں جس کی سورت النور کی 23 ویں آیت کریمہ یہ حکم دے رہی ہے کہ انکے مرقع عبرت اور شرمناک انجام کا ہجوم کی صورت میں عملی مشاہدہ کرنے کیلئے جمع ہو جائیں، اب ہمارے پاس تو کیمرے کی آنکھ اور ٹی وی سکرین کا آئینہ بھی موجود ہے! ہم تو بیک وقت ساری دنیا کو یہ منظر دکھا سکتے ہیں!
پھر ہمیں انسانیت کے محسن اعظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فریاد کرنا ہے جو ریاست مدینہ کے بانی اور حاکم اول ہیں اور انسانیت کو میثاق مدینہ یا مدینہ شریف کا چارٹر عطا فرما گئے ہیں جو بقول ڈاکٹر حمیداللہ انسانیت کا سب سے پہلا انقلابی دستور ہے۔ لکھا ہوا صدیوں سے محفوظ ہے اور جو رنگ و نسل کو مسترد کر کے تمام انسانوں کو پرامن بقائے باہمی کا حکم دیتا ہے اور جس میں مردوں کے مفاد کے مقابلے میں عورت کے مفاد کو مقدم رکھا گیا ہے! کتب سیرت میں اور تاریخ میں آپ کو ملے گا کہ خواتین صحابیات بھی مرد صحابہ کرامؓ کے ساتھ پانچ وقتی نماز باجماعت میں شریک ہوتی تھیں، ایک روز ایک خاتون نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ! آپ نے ہم خواتین کو بھی سب سے آخری صفوں میں کھڑے ہونے کی اجازت فرما چکے ہیں، اس پر ہم سب اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اکرمؐ کا شکریہ ادا کرتی ہیں، مگر پچھلی صفوں کی وجہ سے اور پھر یہاں اپنے باپ بھائی اور شوہر کی موجودگی میں نہ پوری طرح سن سکتی ہے نہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں! اس پر سراپا شفقت و رحمت رسولؐ نے فرمایا: بیٹی! تمہاری شکایت بجا ہے، آج سے میں جمعہ والے دن پورا وقت صرف اور صرف تم خواتین کیلئے مختص کرتا ہوں۔
پھر ہم نے یہ جو موٹرویز بنائی ہیں یہ تو دن میں بھی دور سے چمکتے ہوئے پانی کے سمندر لگتی ہیںاس لیے لازم ہے کہ یہ شوارع پرامن اور آبادکناروں والی بن جائیں۔ موٹرویز کے کناروں پر شہر آباد کئے جائیں کیونکہ وطن کی وڈیرہ شاہی نے میرے کراچی اور میرے لاہور وغیرہ کی قیمتی زمینوں کو ہتھیا کر یہاں اپنی نام نہاد کالونیاں بنا کر ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہوا ہے۔
میں اپنی اس بہادر بیٹی کا اصل نام ظاہر کرنے کے بجائے اس کیلئے ایک نیا نام تجویز کرتا ہوں اور یہ نام ہو گا ’’چراغ نور‘‘ اور اس ’’چراغ نور‘‘ کی یاد کو زندہ جاوید بنانے کیلئے ’’چراغ نور‘‘ کے عنوان سے خواتین کیلئے ایک سب سے اعلیٰ بہادری کا اعزاز (جو ستارۂ بسالت سے کسی طرح کم نہ ہو۔ شروع کیا جائے اور سب سے پہلے یہ اعزاز لاہور اور گوجرانوالہ کو دیا جائے کیونکہ یہ بہادر اور حوصلہ مند بیٹی اہل لاہور کی بیٹی اور اہل گوجرانوالہ کی بہو ہے! میں اپنی اس بہادر بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں اپنی اس بہادر اور حوصلہ مند بیٹی کے اس فاتحانہ معرکہ سے دنیا کو روشناس بھی کراتا رہوں گا، میری یہ بہادر اور حوصلہ مند بیٹی ’’چراغ نور‘‘ زندہ باد!