جمعۃ المبارک ‘ 29محرم الحرام 1442ھ‘ 18 ؍ ستمبر 2020ء
موٹروے کیس ملزم کو پکڑ لیا، پولیس کو بار بار جھوٹی اطلاع دینے والا گرفتار
افسوس کی بات ہے کہ ایک سنگین مسئلے پر بھی بعض لوگ مذاق کر رہے ہیں۔ موٹروے زیادتی کیس اس وقت پورے ملک میں موضوع بحث ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر جگہ ایسے معاملات کے سدباب کے لئے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ ان حالات میں چھانگا مانگا کے شہری کو نجانے کیا سوجھی کہ وہ ذاتی لڑائی جھگڑے میں دو بار پولیس کو فون کر کے موٹروے کیس کے ملزم کے پکڑے جانے اور فوری پولیس کو آنے کی کالیں کرتے پایا گیا۔ اب پولیس نے اسے پکڑ کر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ لگتا ہے یہ شخص حد سے زیادہ بگڑا ہوا ہے اور ہر کہیں اس کا کوئی نہ کوئی تنازعہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ رکشہ والے سے لڑا تو پولیس کو فون ، سبزی والے سے لڑو تو پولیس کو فون وہ بھی ایسے حوالے سے جو بہت حساس ہے۔ ایسا اس نے اپنی دھاک جمانے کے لئے کیا ہے یا نہیں مگر یہ بات غلط ہی ہے۔ کیونکہ پولیس حساس مسئلے کی وجہ سے سب کام کاج چھوڑ کر اس جھوٹی کال پر لپکی ہو گی۔ یوں ساری انتظامیہ کو وخت ڈالنا نری حماقت نہیں تو کیا ہے۔ اب اس شرارت کا مزہ اس شخص کو ضرور چکھایا جائے تاکہ اسے شیر آیا شیر آیا والی حکایت کا صحیح مطلب سمجھ میں آ سکے۔ ہر وقت مذاق اچھا نہیں ہوتا ، اکثر ایسا مذاق گلے بھی پڑ جاتا ہے۔
٭٭٭٭
شادی ہالز کھلتے ہی برائلر گوشت کی قیمت میں 14 روپے کلو اضافہ۔ سبزیاں ، پھل 30 فیصد مہنگے
صرف برائلر گوشت ہی کیا اس وقت تو پوری مارکیٹ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ گوشت ہو، سبزی یا آٹا دال سب غریبوں سے لہو کا خراج طلب کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی چیز غریبوں کی دسترس میں نہیں۔ ابھی صرف شادی ہال کھلے تھے کہ ایک روز میں ہی برائلر گوشت 14 روپے فی کلو بڑھ گیا۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ابھی شادیوں کا سیزن شروع نہیں ہوا ، جب یہ سیزن ربیع الاول کے ماہ سے شروع ہو گا تو پھر پتہ چلے گا کہ قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا حکومت شادی ہالز بند ہی رکھتی۔ اس طرح کم از کم برائلر گوشت تو عوام کو منا سب نرخ پر دستیاب رہتا۔ کرونا میں لاکھ برائیاں ہوں، ایک اچھائی یہ بھی تھی کہ اس کی وجہ سے بہت سے غریبوں نے اپنے بچوں کی شادی سادگی سے کر کے اپنی غربت کی لاج رکھ لی۔ اب مہنگائی تو حکومت روکنے سے رہی ۔لگتا ہے مہنگائی نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ حکمرانوں نے عوام کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اب حکومت بارات اور ولیمہ پر ون ڈش کی طرح مہمانوں کی تعداد بھی مقرر کر دے تو بہت سے لوگ زیر بار ہونے سے بچ جائیں گے۔
٭٭٭٭
پشاور بی آر ٹی کی ایک اور بس میں آتشزدگی ، سروس معطل
یہ ہے پشاور کی وہ جنگلہ بس سروس جس کی وزیر اعظم تک نے بہت تعریف کی تھی۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کو تو نام لے کر مبارکباد دی گئی تھی کہ ان کے دور میں یہ عظیم الشان منصوبہ شروع ہوا۔ اس منصوبے کی عظمت کا یہ حال ہے کہ یہ مقررہ وقت سے کافی زیادہ عرصے بعد بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ کچی پکی حالت میں ہی اس کا افتتاح کر دیا گیا۔ جس طرح اورنج ٹرین کا سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کیا تھا۔ اخراجات کے کوہ گراں کے باوجود بی آر ٹی سروس شروع تو ہو گئی۔ مگر حال یہ ہے کہ ایک ماہ میں یہ پانچویں بس ہے جو رانی پدماوتی کی طرح آپ اپنی سلگائی چتا میں جل مری۔ اب اس آتشزدگی کے بعد فوری طور پر پشاور انتظامیہ نے یہ بس سروس عارضی معطل کر دی ہے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ بس بنانے والی چینی کمپنی سے پوچھا جائے گا کہ بسیں دھڑا دھڑ کیوں جل رہی ہیں۔ لگتا ہے کمیشن کے چکر میں ناقص بسیں درآمد کی گئیں۔ اب ظاہر ہے غیر معیاری بسوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ چائنا والوں پر ہم الزام لگا نہیں سکتے کیونکہ وہ خریدار کو حسب منشا معیاری یا غیر معیاری مال یا سامان فروخت کرتے ہیں۔ اب حکومت یا نیب ذرا کمیشن مافیا پر بھی ہاتھ ڈالے اور اپنا سمجھ کر انہیں رعایت نہ دے۔
٭٭٭٭
خواتین میں سیلف ڈیفنس کلاسز لینے کا رحجان بڑھ گیا
یہ بہت اچھی بات ہے۔ لڑکیوں کو کم از کم اتنی ٹریننگ ضرور حاصل کرنا چاہئے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ اوباشوں سے اپنا دفاع کر سکیں۔ اگر ہمارے سکولز اور کالجز میں بچوں اور بچیوں کو خود حفاظتی کی تربیت دی جائے انہیں جوڈو کراٹے اور اپنا دفاع آپ کرنے کے قابل بنایا جائے تو بہت سے ناگہانی حالات میں وہ اپنا دفاع کر سکیں گی۔ آج کل کے ناموافق ماحول میں جس طرح بچے اور بچیاں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس خوف کے ماحول سے نکلنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح کی تربیت سے خواتین اور لڑکیوں میں اعتماد پیدا ہو گا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ عدم اخلاقی تنزلی کا شکار ہے پڑوسیوں، رشتہ داروں ، غنڈوں اور آوارہ منش لوگوں سے کسی کی ماں ، بہن ، بیٹی محفوظ نظر نہیں آ رہی۔ ایسے حالات میں اگر بچیاں ایسے شیطان صفت افراد سے خود کو بچاتی ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ اس کے ساتھ حکومت اور عدلیہ بھی ایسے لوگوںکو چاہے پھانسی پر لٹکائے یا ساری زندگی کے لئے خواجہ سرا بنا کر چھوڑے مگر کسی کو رعایت نہ دے۔ قانون کا خوف بھی ماحول کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تربیت کے بعد یہ لڑکیاں ثابت کر سکتی ہیں کہ شیشہ نہیں فولادہیں ہم ۔ ہم سے جو ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا۔
٭٭٭٭