بلوچستان میں غذائی قلت کے روک تھام کیساتھ ساتھ شعور و آگاہی کا فروغ ضروری ہے،مشاہد حسین
اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی)سٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ امورکے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمیں باتوں سے نکل کر عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی سربراہی میں حکومت بلوچستان متحرک ہے، محکمہ صحت صوبائی نیوٹریشن ڈائریکٹریٹ بلوچستان و پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز کے زیر اہتمام ماں اور بچوں میں غذائی قلت سے متعلق آگاہی دینا اور غذائیت سے متعلق انتہائی اہم نوعیت کا سیمینار اسلام آباد میں منعقد کروانا دور رس نتائج پر مبنی اقدام ہے۔ اسلام آباد میں ڈونر ایجنسیز اور ایوان نمائندگان و متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بلوچستان کی غذائیت کے حوالے سے جو معلومات دی گئی ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں غذائیت ماں اور بچے کی صحت کو فوقیت دیں۔صحت سمیت بچیوں کی تعلیم و غذائیت کو ترقی کے ایجنڈے کے طور پر فروغ دینے کا ادراک ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ یہ بات انہوں نے محکمہ صحت بلوچستان کے نیوٹریشن ڈائریکٹریٹ کے زیر اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز میں ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے بلوچستان میں غذائی قلت کے روک تھام کے ساتھ ساتھ شعور و آگاہی کا فروغ بھی انتہائی ضروری ہے جبکہ پالسی سازی میں اس کو ہر صورت شامل کیا جانا چاہیے انہوں نے مزید کہا کہ غذائیت کے حوالے سے ہر تین چار مہینے میں بلوچستان یا وفاقی سطح صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران و اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو اس مسئلے کے حوالے سے مشاورتی و اگاہی اجلاس منعقد کروانے چاہیے۔ سیمینار سے صوبائی وزیر صحت بلوچستان میر نصیب اللہ مری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ماں اور بچے کی غذائیت اور اس سے منسلک طبی پیچیدگیوں کے بحران کا سامنا ہے۔ ماں اور بچے کی غذائیت کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے بلوچستان نیوٹریشن پروگرام صرف چند اضلاع میں خدمات سر انجام دے رہاہے ۔صوبے میں نیوٹریشن ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروگرام کو صوبے کے دیگر اضلاع میں فلفور وسعت دی جائے تاکہ ہم عالمی سطح پر مرتب کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے مثبت اشاریہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اس اہم مسلے میں صوبوں اور مرکز کے علاؤہ عالمی اور قومی ڈونر ایجنسیز کو باہمی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور وہ حکومت بلوچستان کی تکنیکی اور مالی معاونت کریں۔ انہوں نے سمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ادارہ جاتی ، تکنیکی ، پالیسی اور وسائل سے متعلق رکاوٹوں ،چیلنجز اور قومی غذائی سروے 2018 کے نتائج کے مطابق مربوط پالیسی سازی کی تشکیل کے تحت مستقبل میں اس اہم مسلے کے کا حصول شامل ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عثمان خان کاکڑ، سینیٹرمیر کبیر محمد شہی، ایم این اے منورہ بلوچ نے کہا کہ خشک سالی کے نتیجے میں بلوچستان میں غربت سمیت دیگرمعاشی، سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کے سبب غذائی قلت کے شکار ماؤں اور بچوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جو قابل تشویش ہے بلوچستان کو اللہ تعالی نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے مگر وسائل کی کی عدم دستیابی کے سبب بلوچستان کا سماجی ،معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ گراوٹ کا شکار ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت ڈونر ایجنسیز کے ساتھ مشترکہ طور پر سنگین مسائل کی طرف توجہ مبذول کرے جس میں سرفہرست پانی کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ اس موقع پر وفاقی پارلیمانی سیکرٹری کریں برائے صحت صحت ڈاکٹر نوشین حامد و نیشنل ڈائریکٹر نیوٹریشن ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے اسٹنٹنگ پروگرام کے لئے ایک جامع پروگرام شروع کرنے جا رہی ہے جو کہ اہم نوعیت کا منصوبہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ وفاقی حکومت مت اس سنگین مسئلے کو پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تقریب سے سے عالمی بینک، یورپین کمیشن، نیوٹریشن انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا اور حکومت بلوچستان کی ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔