آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی۔مہینہ ستمبر کا جسے ماہ ستمگر کہا جاتا ہے ،سن دو ہزار تیرہ اور تاریخ تھی بائیس۔ اتوار کی صبح عبادت کے دوران پشاور کے ایک چرچ پر دہشت گردوں نے وار کیا۔ سو ا سو بے گناہ موقع پر جان دے بیٹھے اور اڑھائی سو کے قریب زخموں سے نڈھال پڑے تھے۔
میں نے اس روز کی ڈائری کا صفحہ کھولا تواس پر درج ذیل تاثرات قلم بند کئے گئے تھے:
وزیر اعظم کو اگر پشاور سانحے کی خبر دوران پرواز ملی تھی تو وہ ایئر فورس ون سے یہ حکم جاری کرسکتے تھے کہ پشاور ایئر بیس کا نام سیسل چودھری بیس رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے دو پیغام ملتے۔ ایک، ملک کی مسیحی برادری کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا اور دوسرے وطن دشمنوں کو پتہ چلتا کہ پاکستان اپنی مسیحی برادری کی کس حد تک عزت افزائی کرتا ہے۔اس سے قائد اعظم کی روح کو بھی آسودگی ملتی جنہوںنے فرمایا تھا کہ پاکستان بن چکا ، اب یہاں سب کے حقوق مساوی ہیں۔سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس کارنیلیس کے تاریخی کردار کو اس کے میوزیم کی زینت بنایا جائے گا، یہ کاز عدلیہ ہی کا نہیں پوری قوم کا افتخار ہے، اسے مینارپاکستان کے سائے میں جگہ ملنی چاہئے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سانحہ پشاور کے غم زدہ خاندانوں کی آنکھوں سے آنسو کیسے پونچھوں، مرنے والے میرے اہل وطن تھے،انہیں کوئی مسیحی کیوںکہتا ہے، اور اگر وہ مسیحی تھے بھی تو ان کا کردار ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج میں ان قومی ہیرو زکے سامنے سخت شرمندہ ہوں جنہوں نے مادر وطن کے دفاع میں تن من دھن کی بازی لگائی۔ان میں مسیحی ہیروز بھی پیش پیش ہیں۔ بھارت کے ساتھ پینسٹھ اور اکہتر کی دو جنگوں میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں کو ستر ستارہ جرات عطا کئے گئے، ان میں سات مسیحی ہوا باز بھی شامل ہیں۔ ان میںسے ایک ایک کی قربانی اور دلیری کا ذکر کرنے کے لئے کئی کئی شاہنامے تصنیف کئے جا سکتے ہیں۔ ایئر مارشل ایرک گورڈن ہال نے آزادی کے بعد پاک فضائیہ کا انتخاب کیا، وہ بھارتی ایئر فورس کا انتخاب بھی کر سکتے تھے لیکن پاکستان میں انہوںایک مضبوط اور توانا فضائی قوت منظم کرنے میںشاندار کردار ادا کیا۔وہ ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف کے منصب تک پہنچے،پینسٹھ میں وہ چک لالہ جسے اب نور خاں ایئر بیس کا نام دے دیا گیا ہے، کے ٹرانسپورٹ کے شعبے کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ لڑائی چھڑی تو انہیں احساس ہوا کہ پاک فضائیہ کے پاس بمبار طیاروں کی کمی ہے ، انہوںنے سی ون تھرٹی ٹرانسپورٹ طیارے میںتبدیلی کی اور اسے بمباری کے قابل بنایا۔ گروپ کیپٹن کے طور پرپہلے مشن پر وہ خود روانہ ہوئے، ٹرانسپورٹ طیارہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتا مگر انہوں نے کشمیر میںکٹھوعہ کے پل کو بمباری کر کے اڑا دیا۔ ہائی کمان ان کے ایکشن پر اس قدر مطمئن تھی کہ انہیں تیرہ مزید حملوں کی اجازت دی گئی۔ان طیاروں کی مدد سے انہوںنے لاہور کے اٹاری سیکٹرمیں بھارت کے ہیوی توپ خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، قوم نے ستارہ جرات سے نواز کر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ایئر کمودو نذیر لطیف، پینسٹھ کی جنگ میں ایک بمبار ونگ کے سربراہ تھے۔انہوںنے بھارت کے اندر انبالہ پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔ بھارتی اڈے کی حفاظت کے لئے روسی سام میزائلوں کا حصار قائم کیا گیا تھا مگرنذیر لطیف نے بے خوفی کامظاہرہ کیا۔دو مواقع پر ان کے جہاز کو شدید نقصان بھی پہنچا لیکن وہ طیارے کو بحفاظت اڈے پر اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ان کے سینے پر ستارہ جرات سجایا گیا۔ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈل کوٹ کا تذکرہ جذبہ حب الوطنی سے لبریز ہے۔وہ پینسٹھ کی جنگ میں ایف 104سٹار فائٹر کے سکواڈرن کی کمان کر رہے تھے، انہوں نے دشمن پر بڑھ چڑھ کر وار کیا۔اور اس کی پیش قدمی کو ناممکن بنا دیا۔اکہتر کی جنگ میں وہ بیرون وطن تربیت پر تھے مگر وہ فوری طور پر واپس آ گئے۔انہیں اگلے ہی روز بھارت کے محفوظ تریں اڈے جام نگر پر بمباری کا مشن سونپا گیا۔وہ اپنے مشن میں کامیابی کے بعد واپس آ رہے تھے کہ دشمن کے دو مگ اکیس طیاروں سے ان کی مڈھ بھیڑ ہو گئی۔ایک میزائل ان کے جہاز کو لگا، وہ جہاز سے کود گئے مگر تلاش کے باوجود ان کا سراغ نہ ملا ۔سیسل چودھری کا نام زبان پر آتا ہے تو شجاعت کی عظیم داستانیںان کے کارناموں کے سامنے گہنا جاتی ہیں۔چھ ستمبر پینسٹھ کو انہوںنے لاہور اور سیالکوٹ محاذ پر دشمن کا کچومر نکالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اگلے روز شام کو انہیں ہلواڑہ پر حملے کا ٹاسک دیا گیا ،سال گروپ کیپٹن سرفراز رفیقی اس مشن کی قیادت کر رہے تھے اور فلائٹ لیفٹیننٹ حسن بھی انکے ہمراہ تھے،کسی فنی خرابی کی وجہ سے مشن کی پرواز میں تاخیر ہو گئی جس کی وجہ سے دشمن چوکنا ہو گیا، پٹھان کوٹ پر پی اے ایف کے ہوا باز کامیابی سے حملے کے بعد واپس آرہے تھے، انہوںنے خبردار کیا کہ فضا میں بھارتی ہنٹر طیارے موجود ہیں۔ ہنٹر اور سیبر کا کوئی مقابلہ نہیں ، مگر ہلواڑہ کے شہریوںنے دیکھا کہ ہمارے جہازوں نے دشمن کا کس دلیری سے سامنا کیا، مسلسل فائرنگ کی وجہ سے سرفراز رفیقی کی گنیں جام ہو گئیں تو انہوںنے سیسل چودھری سے کہا کہ وہ حملے کی قیادت سنبھالے۔ سیسل نے تاک کر نشانہ لگایا اور ایک بھارتی ہنٹر کو مار گرایا، ہلواڑہ کے شہریوں پر یہ طیارہ آتش فشاں بن کر گرا۔حسن بھی ایک اورہنٹر کے تعاقب میں دور نکل گیا اور اس کا کچھ پتہ نہ چلا، سرفراز رفیقی نے آخر دم تک عقب سے سیسل کو تحفظ فراہم کیا ۔ جب تک سیسل نے بھارتی ہنٹرز کو لڑائی سے منہ موڑ کر بھاگنے پر مجبور نہیں کر دیا، وہ ہلواڑہ کی فضائوں میں ڈٹا رہا۔اکہتر کی جنگ میں سیسل چودھری، اس کو ڈرن لیڈر کے منصب پر فائز تھا، ظفر وال شکرگڑھ سیکٹر میں اس کے طیارے کو نقصان پہنچا، اس نے کاک پٹ سے چھلانگ لگا دی،وہ دشمن کے علاقے میں گرا، اس کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی مگر وہ اپنے اڈے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔سکواڈرن لیڈر ولیم ڈیسمونڈ ہارنے کی دلیری پاک فضائیہ میں ضرب المثل بن چکی ہے۔پینسٹھ کی جنگ میں اس کاایک ہاتھ سخت زخمی تھا مگر اسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہنامنظور نہ تھا ، اس نے اپنی خدمات دفاع وطن کے لئے پیش کیں اور آدم پور، ہلواڑہ، جودھپور،پٹھان کوٹ اور انبالہ کے بھارتی اڈوں پر حملوں میں سرگرم حصہ لیا، پاک فضائیہ کے یہی وہ حملے تھے جن کا ذکر ریڈیو پاکستان کی خبروں میں شکیل احمد کی زبان سے لوگ سنتے تھے کہ ہمارے ہوا بازوں نے آج دن بھر دشمن کے اڈوں پر نیچی نیچی پرواز کر کے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے تو گلی کوچے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتے تھے۔سکواڈرن لیڈر ہارنے کو بھی قوم نے ستارہ جرات سے نوازا۔سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے نیوی گیٹر کے طور پر پینسٹھ میںمادر وطن کا دفاع کیا۔اکہتر کی جنگ میں وہ پی آئی اے میں ڈیپوٹیشن پرتھا مگر وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ا دائیگی کے لئے ایئر فورس میں واپس چلا آیا۔ جام نگر کے اڈے پر سخت مقابلہ پیش آیا اور وہ لاپتہ ہو گیا، پیشے سے لگن اور فرض شناسی کے بے مثل مظاہرے پر اسے ستارہ جرات عطا کیا گیا۔پاکستانی قوم ستارہ جرات پانے والے ان سات محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔سانحہ پشاور کے بعد ان مسیحی محسنوں کے سامنے ہماری گردن کچھ زیادہ ہی جھک گئی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024