آنکھوں سے نکلنے والا پانی بھی کیا کمال کی چیز ہے۔ سب کچھ بہا دیتا ہے، جذبات، احساسات، تکلیف اور دکھ سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ وہ آنسو بہت قیمتی ہوتے ہیں جن کی قدر کی جاتی ہے، جن کے بہنے پر سب تڑپ جائیں، ہل کر رہ جائیں، دل دہل جائیں ایسے آنسو بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
آنکھوں سے بہنے والا پانی آنسو کی حیثیت اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ متوجہ کرنے میں کامیاب ہو ورنہ وہ پانی ہی رہتا ہے۔ مالدار کی آنکھوں سے پانی نکلے تو عقیدت کا آنسو کہلاتا ہے، حکمران آبدیدہ ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ بہت نرم دل اور خوف خدا والا ہے۔ طاقتور کی آنکھوں سے پانی بہے تو کہا جاتا ہے کہ دل کا بہت نرم ہے۔ یورپ والوں کی آنکھیں نم ہو جائیں تو کہتے ہیں کہ کسی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتے، کسی کی تکلیف برداشت نہیں کر پاتے، بہت ہی نرم دل ہیں کسی کو پریشان دیکھتے ہیں تو بے اختیار رونے لگتے ہیں۔ یہ تو وہ خوش قسمت ہیں جن کی آنکھوں سے نکلنے والے پانی کو آنسو کا درجہ مل جاتا ہے اور دنیا ان کی قدر بھی کرتی ہے، وہ زیر بحث بھی رہتے ہیں لیکن کچھ بدقسمت ایسے بھی ہیں جو دہائیوں سے دکھوں، تکالیف، اذیت، ظلم و بربریت کو برداشت کرتے جا رہے ہیں لیکن آج تک ان کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی آنسوؤں میں نہیں بدل سکا۔ وہ بدقسمت کشمیری ہیں جہاں دہائیوں سے خواتین آنسو بہا رہی ہیں، بچے روتے روتے، ظلم سہتے سہتے بڑے ہو گئے لیکن ان کی آنکھوں کا پانی آنسو نہیں بن سکا، خواتین کے ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے بینائی کھو بیٹھیں لیکن ان کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کو آنسو کا درجہ نہ مل سکا۔
برادرم ڈاکٹر اجمل نیازی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی کشمیریوں کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کو آنسو میں بدلنے کی کوشش کریں ہو سکتا ہے کہ ان کے لکھنے سے پانی آنسو میں بدل جائے چونکہ نیازی صاحب ادبی شخصیت ہیں ان کے قلم میں اتنا اثر تو یقیناً ہو گا کہ پانی کو آنسو میں بدل سکیں۔ وہ شاعری کی زبان میں بھی کوئی کرامت کر سکتے ہیں ان کی دیکھ کر دیگر ادبی شخصیات بھی متحرک ہوں گی یوں ایک منظم مہم بن سکتی ہے جو کشمیریوں کی آنکھوں سے نکلنے والے پانی کی اہمیت کو دنیا کے سامنے رکھے اور انہیں اس کی اہمیت بتانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
قارئین کرام بھارتی فوج کے ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے کشمیریوں کی نسلیں منوں مٹی تلے جا سوئی ہیں لیکن آج تک دنیا انسانی حقوق کے علمبرداروں اور انسانیت کے نام پر نعرے لگانے والوں کی انسانیت نہیں جاگی۔ وہ جو جانوروں کے آنسوؤں پر بے چین ہو جاتے ہیں انہیں آج تک کشمیریوں کے آنسو متوجہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بدقسمت کشمیری نہیں بدقسمت وہ مہذب دنیا کے طاقتور ہیں جو دنیا کے ان محکوم افراد کو آج تک ان کا حق دلانے سے محروم رہے ہیں۔ بدقسمت تو وہ ہیں جنہیں صرف اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا دکھ اور درد جگاتا ہے، بدقسمت وہ ہیں مذہب کو پیمانہ بنا کر تکلیف اور اذیت کا جانچتے ہیں۔ کشمیریوں کے آنسو ان سب پر بھاری ضرور پڑیں گے جس جس نے انہیں نظر انداز کیا ہے، جو جو اس کی وجہ بنا ہے، جس کسی نے انکو استعمال کیا ہے اور جو ان کو تکلیف پہنچاتا رہا ہے ان سب کو اس کا حساب تو دینا پڑے گا۔
ان دنوں بھی کشمیری اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ نو لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے خلاف نبردآزما ہیں۔ گولیاں کھا رہے ہیں، خون بہا رہے ہیں لیکن آزادی کے نعروں سے باز نہیں آ رہے۔ تشدد برداشت کر رہے ہیں، بھوک برداشت کر رہے ہیں، اذیت سے گذر رہے ہیں لیکن بھارت کے ظالمانہ فیصلوں پر سر جھکانے کو تیار نہیں ہیں۔
ظالم بھارتی فوج تمام حدیں عبور کر چکی ہے۔ اب اس نے ذہنی معذوروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ کشمیریوں کو برہنہ کر کے تشدد کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا تشدد کیا جاتا ہے کہ چلنے پھرنے کی ہمت بھی نہیں رہتی۔ رات کے اندھیرے میں نوجوانوں کو اٹھایا جاتا ہے پھر انہیں سڑکوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس وقت یا تو بے بس کشمیریوں کی چیخیں ہوتی ہیں یا پھر فوجیوں کے بوٹوں کی آوازیں۔ لیکن دنیا کو نہ تو کشمیریوں کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں نہ ظالم بھارتی فوجیوں کے بوٹوں کی آوازیں۔ کبھی تو ان کشمیریوں کے آنسوؤں کی قدر ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی ضرور اپنے کشمیری بھائیوں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لیں گے۔ کشمیریوں کو ان کا حق ملے گا، انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزادی ہو گی اور پاکستان اس تحریک آزادی میں ان کا بھرپور ساتھ دے گا۔
دوسری طرف ایک مرتبہ پھر امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ کر کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں امریکی سینیٹرز اور امریکی کانگریس اراکین کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ تیسرا خط ہے۔ امریکی سینیٹرز اور کانگریس اراکین زور دے رہے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین اس تنازع کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔ سینیٹرز اور کانگریس اراکین میں ہر گذرتے دن کے ساتھ کشمیر میں ہونیوالی جبری گمشدگیوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی گرفتاری اور نظر بندی سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں یہ سوچ اور پکڑ رہی ہے کہ کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی ثالثی کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور آزاد انسانی حقوق کے مبصرین کو بھی مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے تاکہ وہ غیر جانبدارانہ رپورٹس مرتب کریں اور حقائق دنیا کے سامنے لائے جا سکیں۔
دنیا کے لیے لازم ہے کہ پرامن رہنے کے لیے کشمیریوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان اپنی پالیسی واضح کر چکا ہے۔ پاکستان نے اب تک تحمل مزاجی کا مظاہرہ بھی کیا ہے اس سے پہلے کہ بات حد سے بڑھ جائے اور ہتھیاروں کے استعمال کے سوا کوئی آپشن نہ بچے اس اہم ترین مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہی دنیا کے مفاد میں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024