پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ترمیمی معاہدہ
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے ترمیمی معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ اب ایران پائپ لائن میں تاخیر پر ثالثی عدالت میں نہیں جائے گا اور نہ ہی پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ دونوں ممالک مل کر منصوبے کی تکمیل کے لیے قابل عمل حل نکالیں گے۔ پاکستان 2024ء تک آئی پی پائپ لائن تعمیر کر سکے گا ، جس کے بعد پاکستان ایران سے 750 ملین مکعب فٹ گیس یومیہ خریدے گا۔ اس منصوبے سے پاکستان 25 سال (2049) تک گیس حاصل کر سکے گا۔
ایران نے گیس پائپ لائن منصوبے کے ترمیمی معاہدے پر دستخط کر کے اسلامی اخوت اور برادرانہ تعلقات کا ثبوت دیا ہے۔ اس معاہدے پر پیپلز پارٹی کے دور میں 2008ء میں آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان دستخط کئے تھے۔ ایران نے اپنی جانب سے بڑی تیزی کے ساتھ پائپ لائن تعمیر کر دی۔ مگر پاکستان پر اس منصوبے پر کام کرنے کے حوالے سے یہ افتاد آن پڑی کہ اُنہی دنوں جوہری تیاریوں کے الزام میں ایران، امریکی اور عالمی پابندیوں کی زد میں آ گیا۔ یوں پاکستان اس منصوبے پر پیشرفت نہ کر سکا۔ گزشتہ آٹھ دس سال سے ایران کی طرف سے منصوبے کو مکمل کرنے کے تقاضے ہوتے رہے۔ یہی وہ دن تھے جب پاکستان میں گیس کی قلت سے پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا لگا اندرونی طور پر گیس کی قلت کے باعث خصوصاً سردیوں میں صنعتیں ٹھپ اور گھریلو ضرورتیں پوری نہیں ہوتی تھیں۔ اس حوالے سے امریکہ کا ایران دشمنی کے باعث پاکستان سے رویہ بھی معاندانہ تھا۔ امریکہ نے امتیازی پالیسی اختیار کی کہ بھارت کو ایران سے تیل خریدنے اور ایران میں تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کی اجازت تھی لیکن پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے مجوزہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام کا سوچا بھی تو اسے عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ترمیمی معاہدے پر دستخط کرتے وقت پاکستان کی مجبوریاں یقیناً ایران کے پیش نظر ہوں گی۔ خبروں میں اگرچہ یہ تفصیل نہیں بتائی گئی کہ پاکستان اس منصوبے پر فوری عمل کر سکے گا یا فی الحال امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیاں اُٹھنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ شروع میں اس منصوبے میں بھارت بھی شامل تھا لیکن پھر وہ پاکستان پر بداعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے منصوبے سے نکل گیا اور ایرانی گیس خشکی یعنی پاکستان کے راستے درآمد کرنے کی بجائے سمندر میں پائپ ڈال کر لے جانے کا پراجیکٹ بنا لیا۔