شرح سود برقرار، مہنگائی کی رفتار بڑھنے کا خدشہ
سٹیٹ بنک نے مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو سوا تیرہ فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے پیر کو مرکزی بنک کی جانب سے اعلان کر دہ مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ زرعی پالیسی کمیٹی نے اپنے گزشتہ روز کے اجلاس میں پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اسے 13.25 پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شرح سود برقرار رکھنے کے باوجود مہنگائی کی رفتار بڑھنے کے خدشات میں رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اُدھر قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان نے مشیر خزانہ سے مہنگائی کی وجہ بتانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ پنجاب نے جو ان دنوں عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں حجاز مقدس میں ہیں ، سعودی عرب سے پرائس کنٹرول کے بارے میں کابینہ کمیٹی کو مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
سٹیٹ بنک کا خدشہ پریشان کن ہے۔ گزشتہ دنوں مشیر خزانہ نے معیشت کے استحکام کی نوید سنائی تھی۔ مگراسکے باوجود عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور سٹیٹ بنک کی تازہ مالیاتی پالیسی کچھ اور بھی کہہ رہی ہے۔ اصل میں سود کی شرح جتنی بلند ہو گی ، عام بچت کاروں، ریٹائرڈ پنشنروں کو جنہوں نے اپنی جمع پونجی ، بچت کے قومی مراکز یا بنکوں میں لگا رکھی ہے، فائد ہ پہنچتا ہے ، لیکن سرمایہ کار اتنی بھاری شرح سود پر قرضہ لے کر فیکٹری یا کاروبار کو منافع بخش سطح پر نہیں چلا سکتا۔ جس کے باعث صنعتی ترقی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے یا بند ہونے لگتی ہے۔ اس وقت حکومت کے مشیران مالیات آگے آئیں اور ایسی مہارت کا مظاہرہ کریںکہ توازن کیسے پیدا کرنا ہے کہ پنشنروں اور بچت کاروں کی گزر بسر بھی ہوتی رہی اور سرمایہ کار کو انڈسٹری اور بزنس چلانے کے لیے زیادہ زیربار بھی نہ ہونا پڑے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مہنگائی بھی نہ بڑھے۔ اگر تو ماہرین مالیات مہنگائی روکنے کا کوئی موثر طریقہ اختیار کر لیتے ہیں تو یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکام کو یہ ہدایت بروقت ہے کہ کم از کم مصنوعی مہنگائی کو تو کنٹرول کیا جائے اور اس حوالے سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔