بدھ ‘ 18 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 18ستمبر 2019 ء
سندھ حکومت کا کراچی کو ایک ماہ میں صاف کرنے کا اعلان
کراچی میں صفائی کا مسئلہ تو بھوت بن کر وفاقی حکومت سندھ کی صوبائی حکومت اور کراچی بلدیہ کے سروں پر سوار ہو گیا ہے۔ ان کی باہمی چپقلش کا خمیازہ کراچی والوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ بے چارے حیران ہیں کہ بجائے صفائی کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے‘ یہ سب صفائی کے دعویدار ایک دوسرے پر گند اچھال رہے ہیں۔ اس حالت میں شہر کی صفائی پر توجہ کون دے گا۔ اس باہمی خانہ جنگی کے ماحول میں وزیر بلدیات سندھ نے خاصہ مجاہدانہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا گند صوبائی حکومت ایک ماہ میں صاف کر دے گی۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اس گند کو ختم کرنے کے لیے ہر ڈپٹی کمشنر کو 5 کروڑ روپے جاری کر دئیے ہیں۔ یہ مہم 21 ستمبر تک جاری رہے گی۔ خدا کرے علی زیدی یا وسیم اختر کے کاغذی دعوئوں کے برعکس حکومت سندھ کچرا کے خلاف یہ جنگ جیت لے۔ اب کراچی والوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیں جو اپنا سارا گند گھر کے باہر گلیوں کوچوں میں یا سڑکوں پر پھینکتے ہیں جو لوگ اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ کچرا کوڑے کے ڈرم میں پھینکیں انہیں کم از کم گند پر شور مچاتے ہوئے حیاآنی چاہئے۔ اگر کراچی والے اپنا پھیلایا گند نہیں سمیٹ سکتے تو دوسروں سے گلہ بھی نہ کریں۔ اپنے شہر کو صاف رکھنا شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ بہت ہو چکی کچرے پر سیاست اب کچرا سمیٹنے کا کام ہونا چاہئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے اس وقت جو لوگ کچرے پر سیاست کر رہے ہیں یہ خود بھی اس کچرے کو پھیلانے کے بڑے ذمہ دار ہیں کیونکہ دس سال سے کیا یہ سب سو رہے تھے۔
٭٭٭٭
آئل فیلڈ حملے ۔ جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ سعودی عرب بتائے کون ملوث ہے۔ ٹرمپ
ایک تو امریکی صدر ٹرمپ کو ویسے ہی عادت ہے ہر جگہ سینگ پھنسانے کی اوپر سے قدرت بھی ان پر مہربان لگتی ہے۔ انہیں وقتاً بوقتاً ایسے سنہری موقع ملتے رہتے ہیں جب وہ اپنا سینگ لڑانے کا شوق پورا کرتے پھرتے ہیں۔ دنیا میں کونسا خطہ ایسا ہے جہاں ان کی وجہ سے فساد نہیں۔ کون سا ایسا براعظم ہے جہاں ان کی وجہ سے خلفشار نہیں۔ کون سا ایسا سیاسی بلاک ہے جو ان کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار نہیں۔ عرب ہو یا عجم ، کوریا ہو یا چین ۔ افریقہ ہو یا برطانیہ ہر جگہ ان کی منہ زور سیاست ، تباہی انتشار اور فساد پھیلاتی نظر آتی ہے۔ کوئی اس منہ زور سیاست کو لگام نہیں ڈال سکتا۔ اب وہ پوری کوشش میں ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کو لڑا دیں۔ جبھی تو نہایت مہارت سے سعودی عرب کو ہلہ شیری دے رہے ہیں۔ بس بتائو کہ حملہ کس نے کیا۔ پھر دیکھو امریکہ کس طرح جوابی وار کرتا ہے۔ اطلاع تو یہ ہے کہ یمن کے حوثی باغی اس حملے میں ملوث ہیں سعودی عرب کے آئل فیلڈ پر ان کے ڈرون طیاروں نے چاند ماری کی تھی۔ مگر ٹرمپ صاحب کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اس میں براہ راست ایران کو ملوث کرے تاکہ امریکہ اسی بہانے ایران سے اپنے پرانے حساب چکتا کرے۔ خدا کرے ٹرمپ کا یہ خواب پورا نہ ہو اور یہ دونوں اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے سے محفوظ رہیں۔ ورنہ اسلامی امہ کو ان دو ممالک کی باہمی چپقلش سے اور نقصان ہو سکتا ہے جو پہلے ہی شام، فلسطین، کشمیر میں لگی آگ کو ابھی تک بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
٭٭٭٭
ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ تمام مسائل فوری حل ہوں۔ شہریار آفرید ی
تحریک انصاف کے پاس مراد سعید کے علاوہ جو جانباز قسم کے مقرر ہیں ان میں شہریار آفریدی بھی شامل ہیں۔ بے دھڑک بات کرنا پھر اس کی وضاحت نہ کرنا بھی ایک فن ہے۔ بہت کم لوگ اس میں طاق ہوتے ہیں ۔ مگر دھڑلے سے بات کرنا اور اپنی بات منوانا بھی ایک فن ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے کئی مقرر واقعی طاق ہیں۔ دراصل یہ مقررین جانتے ہیں کہ ان کا کہا کس نے یاد رکھنا ہے۔ عوام کا حافظہ ویسے ہی حالات و حوادث نے کمزور کر دیا ہے۔ اب بھلا وہ کہاں یاد رکھیں گے کہ فلاں صاحب نے کیا کہا ہے کب کہا ہے کیوں کہا ہے۔ وہ کہتے ہیںناں… ؎
ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سو اب شہریار آفریدی بھی وہی بات کہہ رہے ہیں جو کہتے ہوئے وہ زبان نہیں جلتی جو 100 روز میں تمام مسائل حل کرنے کی تسلی دیتی تھیں۔ 90 روز میں تمام غم و آلام سے نجات کا مژدہ سناتی تھی۔ آج وہی زبانیں کہہ رہی ہیں ہیں کہ ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ تمام مسائل حل کریں۔ ٹھیک ہے بھیا آپ سے کس نے پوچھنا ہے۔ آپ تمام مسائل حل نہ کریں مگر کم از کم اپنی وزارتوں سے منسلک مسائل ہی اگر ہر وزیر اور مشیر حل کرنے لگے تو ایک سال میں اور کچھ نہیں کم از کم 35 یا چالیس شعبوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اب منشیات کو ہی لے لیں پورے ملک کو چھوڑیں آپکا تعلق خیبر پی کے سے ہے آپ صرف اپنے صوبے کو اگر وہ بھی ممکن نہیں تو کم از کم پشاور شہر کو ہی منشیات سے پاک کر دیں تو آپ کی بلے بلے ہو جائے گی باقی مسائل پر مٹی ڈالیں یہ کام ہی کر کے دکھائیں ۔
٭٭٭٭
تیل کی قیمت 12 روپے فی لٹر بڑھنے کا خطرہ
ابھی تو لوگ 5 روپے پٹرول کے سستے ہونے کا مزہ لوٹ رہے تھے کہ اچانک یہ افتاد ٹوٹ پڑی کے عالمی منڈی میں تیل کی رسد میں کمی کی وجہ سے تیل کی قیمت میں اضافہ کی گھنٹی بجنے لگی ہے اور ہمارا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ آگ لگنے سے قبل سائرن بجتے ہی ہماری ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ سو اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ابھی صرف تیل کی رسد میں کمی کے خطرہ کا الارم ہی بجا ہے ہمارے ماہرین معاشیات نے تیل کی قیمت میں 12 روپے تک اضافہ کا بم چلا دیا ہے۔ ابھی تک ہم 5 روپے کے نشے میں چور تھے کہ اب میں 12 روپے اضافہ کے بوجھ تلے دینے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں ’’جائیں تو جائیں کہاں سمجھے گا کون یہاں دل کی زباں‘‘ کیا یہی تازیانہ عبرت ہی کافی نہ تھا ہمیں نیند سے جگانے کے لیے کہ اب اس خبر کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمت بھی بڑھے گی ۔ اب یہ سن کر کون خوش نصیب ہو گا۔ جس پر اثر نہیں ہو گا۔ یہ تینوں ایسا ترپھلہ تیر ہیں جو جگر دوز ہوتا ہے۔ یہ لگتا بھی ٹھیک نشانے پر ہے۔ غریب عوام کو ہی اس کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ اب دیکھتے پر دہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ فی الحال تو خبر سنتے ہی اکثر چہروں کے رنگ زرد پڑ گئے ہیں۔ کئی زبانیں خشک ہو گئی ہیں۔ ایسی حالت میں تو چچا غالب ہی یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا خوب کہا تھا۔
ع…’’مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘‘
٭٭٭٭