چین ایران معاہدہ اور نیو ورلڈ آرڈر
دنیا کی سپرپاور امریکہ نے اپنی سو سالہ بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے کلیدی نوعیت کے جارحانہ فیصلے کیے ہیں جن کی وجہ سے عالمی توازن بگڑ رہا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی دنیا پر عسکری تجارتی اور معاشی بالادستی قائم رہے۔ امریکہ ایک جانب چین پر تجارتی پابندیاں عائد کر رہا ہے جس کا مقصد اس کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرو رسوخ کو روکنا ہے، دوسری جانب امریکہ ایران پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جس کا مقصد ایران کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے تاکہ وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ امریکی پابندیوں کے بعد ایران کے تیل کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے۔ امریکہ کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے چین اور ایران ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔
اکانومسٹ کی مصدقہ اور مستند رپورٹ کے مطابق چین نے ایران کیساتھ دو سٹریٹجک نوعیت کے معاشی معاہدے کئے ہیں جن کے مطابق چین ایران کے آئل گیس اور پٹرولیم کے شعبے میں 290 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ انفراسٹرکچر ٹرانسپورٹ اور صنعت کے شعبوں میں 120 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ مجموعی طور پر 410 بلین ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری امریکی عزائم کو روکنے کی سنجیدہ کوشش ہے اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی منصوبے کا اہم سنگ میل ہے۔ یہ سرمایہ کاری 25 سال کے عرصے میں کی جائے گی۔ چین اور ایران کے سٹریٹجک معاہدے کے مطابق چین کو ایران میں اپنے ترقیاتی منصوبوں سے الگ ہونے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ایران چین کو اپنی برآمدات پر 12 فیصد یقینی منافع دے گا۔
چین ایران کو ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے تکنیکی مہارت فراہم کرے گا اور ان منصوبوں کی سیکورٹی کے لیے 5000 تربیت یافتہ سکیورٹی گارڈ مہیا کرے گا جو ایران میں ان منصوبوں کی نگرانی اور حفاظت کریں گے جو چین کی سرمایہ کاری سے تیار کیے جائیں گے۔ چین ایران کو سستی لیبر بھی مہیا کرے گا۔ چین اور ایران کے درمیان یہ معاہدہ دراصل امریکہ کی ان پالیسیوں کا جواب ہے جو وہ چین کو محدود کرنے اور اس کی ترقی کو روکنے کے لئے کر رہا ہے۔
چین نے ایران کے خلاف استعمال ہونے والے اس امریکی غبارے سے ہوا نکال دی ہے جس کے ذریعے وہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا تھا اور اس پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے سلسلے میں اپنے تمام پروگرام بند کردے اور امریکہ کی تجاویز کو تسلیم کرلے اور امریکہ کی خواہشات کے مطابق نیا معاہدہ کرے۔ ایران امریکی پابندیوں اور عزائم کی مزاحمت کر رہا ہے۔ چین اور ایران کے معاہدے کے بعد امریکہ کی سازش اور حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
ایران پہلے ہی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور اس طرح سلامتی کونسل کے پانچ ممبران میں سے ایران کو دو ممبران چین اور روس کی حمایت اور تائید حاصل ہوجائے گی۔
امریکہ کے لئے ایران کو اپنے قومی مقاصد کے لئے دباؤ میں لانا آسان نہیں ہوگا۔ اس معاہدے کے بعد چین ایران کے تمام تیل اور گیس کے ذخائر خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی پیداوار دو لاکھ بیرل سے ساڑھے چار لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھ سکتی ہے۔ اس معاہدے کے بعد ایران ہندوستان یا کسی اور ملک کا محتاج نہیں رہے گا اور اس کے تیل وگیس کے ذخائر چین اپنی مصنوعات کے لیے خرید لے گا۔
ایران کو تیل اور گیس کی سپلائی کے لیے ترکمانستان چائنہ آئل اینڈ گیس پائپ لائن کی محفوظ شاہراہ بھی میسر آجائے گی اور امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کی سپلائی کو نہیں روک سکیں گے۔ چین ایران میں تیز رفتار ٹرین اور موٹروے سروس پر سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے اس کے لئے نئے تجارتی مواقع پیدا ہوں گے۔ چین کو گوادر پورٹ کے علاوہ ایران کی چاہ بہار پورٹ کی سہولت بھی فراہم ہوگی اور پاکستان اور ایران مسابقت کی بجائے آپس میں تعاون اور اشتراک کریں گے۔
چین کا مڈل ایسٹ ممالک میں اثر و رسوخ بڑھے گا۔ چین ایران اور پاکستان کے تعلقات کو خوشگوار بنانے لیے بھی مثبت کردار ادا کرے گا۔ چین اور ایران کا افغانستان میں اثر و رسوخ بھی بڑھ جائے گا اور اس طرح جنوبی ایشیا میں امریکہ اپنے عزائم پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ بھارت کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس نے ایشیا کی اُبھرتی ہوئی بڑی طاقتوں کے ساتھ چلنا ہے یا امریکہ کا ساتھ دینا ہے؟
بھارت کی خواہش ہے کہ وہ معاشی ترقی کے حوالے سے چین سے آگے نکل جائے مگر اس کا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ اسے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔سعودی عرب کے آ ئیل فیلڈز پر حملہ ہوا ہے۔ امریکہ نے اس حملے کا الزام ایران پر لگایا ہے جبکہ ایران نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
افسوس پاکستان اپنی بیڈ گورننس اور حکمران اشرافیہ کی حد سے بڑھی ہوئی مفاد پرستی کی وجہ سے معاشی ترقی کے امکانات سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ اگر پاکستان کے پاس پوری اہلیت ہوتی تو چین پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ بھی کر سکتا تھا مگر شاید پاکستان کی ریاست ابھی تک بڑی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کر سکا ۔حالانکہ ایران نے معاہدے کے مطابق پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا دی ہے مگر پاکستان بظاہر امریکہ کے دباؤ میں آگیا اور اس نے اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا فقدان ہے۔ پاکستان کے اکثر مقامی منصوبے بھی غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
عالمی امور کے ماہرین کا یہ خواب پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ اگلی صدی ایشیا کی ہوگی۔ امریکہ کا اثرو رسوخ کم ہوتا جائے گا ، نیو ورلڈ آرڈر تشکیل پائے گا۔
دنیا پر واحد سپر پاور کی بالادستی ختم ہوجائیگی، عالمی تعلقات میں توازن پیدا ہوگا اور نئی ابھرتی ہوئی طاقتیں اپنے اثرورسوخ سے دنیا کے ملکوں کو اعتدال میں رکھنے کے لیے اور انتہاپسندی سے روکنے کے لیے موثر اور فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکہ اور مغرب نے جو ورلڈ آرڈر تشکیل دیا اس کے نتیجے میں دنیا کے بارہ امیر ترین افراد دنیا کی کل آبادی کے نصف عوام سے زیادہ دولت کے مالک بن گئے۔ انتہائی ظلم اور ناانصافی کی بات ہے کہ اربوں انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چین کے ماضی کے پیش نظر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر چین کا اثرورسوخ بڑھے گا تو دنیا میں منصفانہ نظام بھی تشکیل پاسکے گا۔ اجارہ داریاں ختم ہوں گی اور دنیا کے غریب عوام کو بھی عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق مل سکے گا ۔کیونکہ چین دنیا میں امن اور سکون کا خواہاں ہے تاکہ اس کی مصنوعات کی سپلائی جاری رہے جبکہ امریکہ چونکہ دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے لہٰذا وہ مختلف ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرتا ہے تاکہ دنیا کے ممالک اس سے اسلحہ خریدنے پر مجبور ہوں اور امریکی اسلحہ کے کارخانہ چلتے رہیں۔ دنیا کے ممالک کی اکثریت امن پسند ہے‘ اس لئے نیو ورلڈ آرڈر کے امکانات موجود ہیں۔ چین روس ترکی ایران نیو ورلڈ آرڈر کے لئے مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گے۔ پاکستان منصفانہ نیو ورلڈ آرڈر کے لئے مکمل تعاون کرے گا۔