میں علامہ صاحب کیلئے دعا گو ہوں
علامہ صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسرت شاہین کو وقفے وقفے سے اپنے گھر مدعو کر کے دونوں کو اپنی بہن کا درجہ دیا۔ اس وقت میاں نواز شریف کی حکومت کیخلاف اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی تشکیل پا چکا تھا۔ ایم آر ڈی کی طرح اے آر ڈی کی کنوینر شپ بھی حروف تہجی کے حساب سے اے آر ڈی کی ہر جماعت کو دینے کا فیصلہ ہوا۔ علامہ طاہر القادری بھی اے آر ڈی کا حصہ بن چکے تھے۔ اسکی پہلی کنوینئر شپ کا معاملہ چل رہا تھا جس کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت اے آر ڈی کے تمام قائدین نوابزادہ نصراللہ خاں کی اقامت گاہ -32 نکلسن روڈ پر جمع تھے۔ علامہ طاہر القادری نے اصرار کیا کہ پہلی کنوینر شپ انہیں دی جائے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ سوچ کر انکی تائید کی کہ ہمیں اے آر ڈی کی تحریک کیلئے منظم کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو تحریک منہاج القرآن کی صورت میں علامہ صاحب کے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ انہیں اے آر ڈی کا کنوینئر بنانے پر اتفاق ہو گیا تو انہوں نے کنوینئر شپ کا دورانیہ ایک سال کا کرنے کی شرط لگا دی۔ یہ شرط بھی قبول ہو گئی اور علامہ صاحب کی قیادت میں اے آر ڈی کی تحریک کا آغاز ہو گیا جس میں علامہ صاحب سب سے زیادہ اپنی ذات کو اجاگر کرتے ۔ انکی قیادت کا ایک سال کا عرصہ مکمل ہوا تو انہوں نے کنوینئر شپ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جب اصرار ہوا تو وہ کود کر اے آر ڈی کی گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ 12 ۔ اکتوبر 99 ء کو مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ٹوپل کر کے اپنی حکمرانی قائم کی تو پہلے ہی روز نئے لائحہ عمل کیلئے اے آر ڈی کی بھی -32 نکلسن روڈ پر تشکیل نو کی گئی۔ علامہ صاحب بھی وہاں آ دھمکے۔
مجھے یہ بات خود نوابزادہ نصر اللہ صاحب نے بتائی تھی کہ میٹنگ کے دوران علامہ طاہر القادری بار بار اٹھ کر باہر جاتے رہے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف انکے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔ یہ رابطہ بھی شائد کسی معجزے کے تحت ہی ہوا ہو گا کیونکہ اس وقت وہاں ٹیلی فون سمیت رابطے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ علامہ صاحب نے پہلے اور آخری انتخابات 2002ء کی اسمبلی کے لڑے اور اپنی پوری پارٹی اور پورے ادارہ منہاج القرآن کو جھونک کر صرف اپنی ایک نشست نکالنے میں کامیاب ہوئے مگر اسمبلی کی عین آدھی میعاد پوری کر کے انہوں نے پارلیمان پر دو حرف بھیجے، اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور مستقل طور پر کینیڈا جا آباد ہوئے۔ وہاں سے انہوں نے 2010ء میں انقلاب ’’کشید‘‘ کیا اور ملک واپس آ کر قومی سیاست میں اتھل پتھل کا فیصلہ کیا، اس کیلئے انہوں نے کینیڈا سے صحافی دوستوں کے ساتھ ٹیلی فونک مشاورتی نشست کا اہتمام کیا۔ میں نے اس وقت بھی ان سے یہی عرض کی کہ بطور دینی مبلغ کے ان کا بہت بڑا مقام ہے اس لیے وہ دینی مبلغ کا کردار ہی ادا کرتے رہیں مگر وہ آدھمکے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا اہتمام کر ڈالا۔ کنٹینر میں انکے پیپلز پارٹی کے وزراء کے ساتھ جو راز و نیاز ہوئے وہ پوری قوم نے لائیو دیکھے، پھر 2013ء کے انتخابات میں انکے کاغذات نامزدگی انکی کینڈین شہریت کے باعث چیلنج ہو گئے۔ وہ سپریم کورٹ میں خود پیش ہوتے رہے مگر عدالت عظمیٰ نے انکے موقف سے اتفاق نہ کیا اور انکے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا الیکشن کمشن کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ اس پر وہ مروجہ سیاسی نظام پر پھر دو حرف بھیج کر واپس کینیڈا چلے گئے۔ اگر وہ اپنے سیاسی کردار کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تو کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر ملک و قوم کی خدمت پر جت جاتے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ‘‘۔ میرے ناقص علم کے مطابق علامہ طاہر القادری پہلے بھی تین بار سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر کے اپنے کارکنوں کو آزمائش میں ڈال چکے ہیں اور پھر انکے پرزور اصرار پر انہیں کینیڈین شہری کی حیثیت سے پاکستان میں اپنا سیاسی کردار برقرار رکھنا پڑا ہے۔ انکے اسی سیاسی کردار کی برکت سے عمران خاں کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی مگر انکے اقتدار کا ایک سال گزرنے پر ہی علامہ صاحب نے سیاست سے تائب ہونے کا اعلان فرما دیا ہے۔ اللہ کرے ان کا یہ فیصلہ اب انکے پائوں میں کوئی لغزش پیدا نہ ہونے دے۔ قوم کو آج بھی ان جیسے نابغۂ روز گار دینی مبلغ کی ضرورت ہے۔ وہ اس میں ثابت قدم رہیں گے تو انکی ساری سیاسی لغزشیں بھی دھل جائیں گی۔ میں بہرصورت انکی بطور دینی مبلغ ثابت قدمی کیلئے دعاگو ہوں۔ (ختم شد)