ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات !
’’مائیننگ لاز‘‘ میں مزدوروں کے لیے جن مراعات کا ذکر ہے، اُس کی ہوا بھی اُن تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہاٹ واٹر باتھ (گرم پانی سے غسل) ہر کان کن کیلئے ضروری ہے تاکہ اُسکی رگوں، نتھنوں، کانوں اور آنکھوں میں گُھسے ہوئے کوئلے کے ذرات باہر نکل سکیں لیکن یہ بے چارہ جب کان سے باہر نکلتا ہے تو غسل تو درکنار پینے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیتا ہے۔ پٹھان کان کن عجب متلون مزاج ہے۔ جنسی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ کوئٹہ کا وہ بازار ان کے دَم قدم سے آباد تھا اور مذہبی جنون کا یہ عالم کہ ایک دفعہ ملحقہ مسجد کے امام سے چند دلالوں کا جھگڑا ہو گیا تو انہوں نے مذہب کی عظمت کی خاطر تمام طوائفوں اور دلالوں کے چہرے مسخ کر د ئیے۔ خوچہ! امارے امام کو ماراہے۔
مزدوروں اور مالکوں میں اکثر دنگا فساد ہوتا رہتا ہے۔ محنت اور سرمائے میں یہ کشمکش ایک تاریخی عمل ہے۔ تاریخ یقیناً اپنے آپ کو اُن لوگوں کیلئے دہراتی رہتی ہے جو اس سے سبق نہیں سیکھتے…ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے بیشتر مالک گزری ہوئی کل کے محنت کش تھے، لیکن سیم و زر کی چمک نے انکی ہوس کو اور تیز کر دیا ہے۔ ماضی کی ذلتوں کو انہوں نے اپنے ضمیر کے تابوت میں گاڑ دیا ہے۔ یہ اپنے لب و لہجے ، رنگ ڈھنگ اور طمطراق سے یہ تاثر دیتے ہیں جیسے یہ کانیں اُن کو مغل شہنشاہوں سے براہِ راست ورثے میں ملی ہوں۔
یادش بخیر، ملک کے ایک مایہ ناز مائین اُونر نبی بخش زہری نے جو آزادی کے وقت خدا جانے کیا تھے، ایک دفعہ بڑی تاریخ ساز تقریر کی تھی۔ یہ غالباً جولائی 1969ء کا واقعہ ہے۔ موصوف قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے اور موضوعِ سخن چاہے کچھ بھی ہو، ہرتان صدر ایوب خاں سے ملاقات پر توڑتے تھے۔ ان دنوں یحییٰ خاں کا مارشل لا تازہ تازہ لگا تھا اور مزدوروں کی ہڑتال نے کچھ ایسی نازک صورتِحال اختیار کر لی تھی کہ فوجی حکام کی مداخلت ناگزیر ہو گئی۔ جنرل نوازش مرحوم نے مجھے اور کرنل ملک لال خاں کو یہ ہدایت کی کہ فریقین کو بُلا کر افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔ کرنل لال خاں کی صدارت میں ڈی سی کے کورٹ روم میں مزدوروں اور مالکوں کی مشترکہ کانفرنس بلائی گئی وہاں نبی بخش نے دلچسپ تقریر کی۔ اپنے خیالات کے اظہار کیلئے منطق کی بیساکھیاں استعمال کیں اور فرمانے لگے: ’’مزدوروں کا اُجرت بڑھانے کا مطالبہ کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اگر انہیں ہماری عملی مشکلات کا رائی بھر بھی اندازہ ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ اُجرتوں کا مطالبہ چھوڑ کر ہمارے لیے ایک ویلفیئر فنڈ قائم کر دیں۔ ان کا کیا ہے، یہ صبح کام پر آتے ہیں اور شام کو پیسے جیب میں ڈالے اور پھر چھٹی۔ آندھی آئے، طوفان آئیں، زلزلے ہرچیز کو تہس نہس کر د یں، انہیں اس سے کچھ سروکار نہیں اور ایک ہم ہیں کہ ؎سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے…مزدوروں کی تنخواہیں وقت پر نہ ملیں تو ہڑتال کی دھمکیاں۔ اگر بجلی فیل ہونے سے ڈی واٹرنگ پمپ کام کرنا چھوڑ دیں تو کانوں کے بیٹھ جانے کا خطرہ، اگر بنک قرض دینے میں پس و پیش کریں تو سارا کاروبار چوپٹ…کبھی کوئلہ ہے تو ویگنیں نہیں ملتیں، ویگنیں مل جائیں تو کوئلہ نکلنا بند ہو جاتا ہے۔ سڑکیں ہم بنوائیں، ہسپتال اور ڈسپنسریاں ہم کھولیں، ان کی زندگی موت کے ہم ذمے دار ہیں، سوروگ ہم نے پال رکھے ہیں، ان کو کیا غم ہے؟‘‘ اس کے بعد اپنی تقریر کا ردِعمل جاننے کے لیے انہوں نے ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ سامعین پر ڈالی، پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے: ’’کرنل صاحب! آپ خود روشن ضمیر ہیں۔ اگر یہ مزدور ہیں تو ہم بھی مزدور ہیں۔ اگر یہ جسمانی مزدوری کرتے ہیں تو ہم ذہنی مزدوری کرتے ہیں۔ اگر ان کے شام تک اعضا شل ہو جاتے ہیں تو ہمارا دماغ بھی چکرانے لگتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر یہ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں تو ہو سکتا ہے ہم دو تین کمروں کے مکان میں سکونت رکھتے ہوں۔ اگر یہ رُوکھی سُوکھی کھاتے ہیں تو ہم شاید چُپڑی ہوئی کھا لیتے ہوں گے۔ محنت کے اس نئے رشتے سے جو ابھی ابھی ہمارے درمیان قائم ہوا ہے، کیا میں حق بجانب نہیں ہوں کہ اپنے مزدور بھائیوں سے چند مطالبات کروں؟ موصوف غالباً اپنے مطالبات کی فہرست نکالنے والے تھے کہ کرنل صاحب نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اسمبلی میں نہیں، بلکہ ٹربیونل کے سامنے کھڑے ہیں۔
جوابِ آں غزل کے طور پر ایک مزدور لیڈر گجا خاں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’میر صاحب! آپ نے آج آجر اور اجیر کے جس نئے رشتے سے ہمیں روشناس کرایا ہے، اس کے بعد ہم مزدور اپنے تمام مطالبات سے فی الفور دستبردار ہوتے ہیں…وہ ایک لمحے کے لیے رُکا۔ ’’صرف ایک شرط ہے کہ آپ اپنے کچھ غم ہمیں دے دیں ا ور ہماری ساری خوشیوں کو اپنا لیں۔ ہماری اب آپ سے ایک ہی درخواست ہے کہ آپ مہینے میں ایک دن…صرف ایک دن ہمارے پاس بطور مہمان ٹھہرا کریں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ ہم کس قدر خوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ شدتِ جذبات سے اس کی آواز بھرا گئی۔ ’’اگر ہمارا مزدور بیماری سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دے یا کان کے حادثے میں ہلاک ہو جائے تو اُس کی میت کو اپنے وطن کی خاک میں دفن ہونے کے لیے ٹرک تک نہیں ملتا۔ اگر آپ کا کتّا بھی بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے سارا ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘ (جاری)