قومی اسمبلی میں ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش,سگریٹ،مہنگے موبائل پر ٹیکس بڑھانے اور پنشن 10 ہزار کرنے کی تجویز
حکومت نے قومی اسمبلی میں ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے منی بجٹ میں سگریٹ اور مہنگے موبائل فون پر ڈیوٹی بڑھانے اور ای او بی آئی کی کم سے کم پنشن 10ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کردی،وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ مالی سال 2018 میں 661 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا، رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ 725 ارب روپے کر دیا گیا ہے، دیامر اور بھاشا ڈیمز کو 6سال میں تعمیر کیا جائے گا، ڈیم کے لیے مختص رقم میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور سی پیک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جبکہ وزیر اعظم، وزرا اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کم کردی گئی ہے، 900درآمدی اشیا پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5ہزار درامدی اشیا ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے جبکہ نان فائلر کیلئے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے، خطرناک معاشی حالات سے نکلنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، قرضے 1200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، فیصلہ کرنا ہے کیا ہم اسی طریقے سے آگے چلتے رہیں گے یا آگے چلنے کی کوشش کریں گے، ہمارا مقصد غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ کم کرنا ہے۔قومی اسمبلی میں ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ معیشت کو استحکام، روزگار اور برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں، ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا بھی ہماری ترجیح ہے، ارکان اسمبلی کی بجٹ تجاویز پر غور کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مالیاتی خسارہ 6.6فیصد تک پہنچ گیا تھا، معاشی طور پر ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے، توانائی کے شعبے میں گزشتہ سال ساڑھے 4 سو ارب روپے کا خسارہ ہوا، گیس کے شعبے میں 100ارب روپے سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے، گیس کے تمام معاہدے ڈالر میں ہوتے ہیں، گزشتہ روزکا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، اگر ہم نے فیصلے نہ کیے توزرمبادلہ ذخائر مزید گرسکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں خسارہ 7.2فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ ملک پر بیرونی قرضے 95ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، ملکی زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں، گزشتہ چند ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20روپیکمی آچکی ہے، روپے کی قدر میں کمی سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے عام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے پٹرول مزید 20روپے مہنگا ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خطرناک معاشی حالات سے نکلنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، قرضے 1200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، فیصلہ کرنا ہے کیا ہم اسی طریقے سے آگے چلتے رہیں گے یا آگے چلنے کی کوشش کریں گے، ہمارا مقصد غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ کم کرنا ہے۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ بجٹ میں صوبوں کا مجموعی خسارہ 18 ارب روپے تھا، جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں محصول کی ادائیگیوں کے ہدف میں 300 ارب کا فرق ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کسان کی آسانی کیلئے کھاد کی ترسیل بڑھارہے ہیں، وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ صحت انصاف کارڈ کا اجرا کیا جائے، انصاف کارڈ کے تحت علاج کیلئے 5لاکھ 40ہزار روپے تک اخراجات دیئے جائیں گے، مزدوروں کے لیے 10ہزار گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے، 8276 گھروں کی تعمیر کے لیے ساڑھے 4ارب روپے ریلیز کیے جائیں گے۔اسد عمر نے اعلان کیا کہ امپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی)پنشنرز کی کم سے کم پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، پٹرولیم لیوی ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے، صنعتوں کیلئے 44 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کرچکے ہیں، ریگولٹری ڈیوٹی کی مد میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو 5 ارب روپے کا ریلیف دے رہے ہیں۔اسد عمر کہنا تھا کہ مالی سال 2018 میں 661 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا، رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ 725 ارب روپے کر دیا گیا ہے، دیامر اور بھاشا ڈیمز کو 6سال میں تعمیر کیا جائے گا، ڈیم کے لیے مختص رقم میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور سی پیک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جبکہ وزیرا اعظم، وزرا اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کم کردی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ 900درآمدی اشیا پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5ہزار درامدی اشیا ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے جب کہ نان فائلر کیلئے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مختلف طریقے سے جو اچھا ہوا اسے رکھیں گے لیکن تبدیلی کی ضرورت بھی ہے، 30 سال میں ہم نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی، 10سال پہلے بھی ہم مشکل حالات میں تھے،یہ ملک اللہ تعالی کی دین ہے، صرف ہمارے آبائو اجداد کی محنت سے نہیں بنا، یہ ملک اور قوم ضرور ترقی کریں گے۔وزیر خزانہ کے مطابق بجٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے سلیب 6سے بڑھا کر 8کردیئے اور تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک اضافہ کردیا گیا جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس 4لاکھ 80روپے سے بڑھا کر 6لاکھ روپے کردیا گیا جب کہ بینگ ٹرانزیکشن پر نان فائلر 0.6فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔4 سے 8 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا،8 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 2 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا،12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 5 فیصد فکسڈ ٹیکس دینا ہوگا،24 سے 30 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر نیا سلیب متعارف کرا دیا گیا ہے،24 سے 30 لاکھ روپے آمدن پر 60 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا،24 لاکھ سے زائد اور 30 لاکھ روپے سے کم آمدن پر 15 فیصد اضافی ٹیکس دینا ہوگا ،30 سے 40 لاکھ روپے آمدن پر 20فیصد فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا،30سے 40لاکھ روپے آمدن پر 150 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا،40سے 50لاکھ روپے آمدن پر 25فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا،40سے 50لاکھ روپے آمدن پر 3لاکھ 50ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا،50لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 29فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا،50لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 6لاکھ روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔دوسری جانب بجٹ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا کہ ٹیکس کا بوجھ صرف امیروں پرڈالا ہے، تمام چیزوں کے نتائج سامنے میں وقت لگے گا، ہم نے صاحب ثروت لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا ہے، خسارے کوقرضہ لیکرپورا کیا جارہا ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے لیے جارہے تھے۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ سیلری کلاس کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 25فیصد کردیا ہے اور نان سیلری کلاس کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 29فیصد ہے، نان فائلرز گاڑی اور پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ حکمرانی بہتر کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تمام اقدامات کے نتائج آنے میں تھوڑا وقت لگے گا، امید ہے بند فیکٹریوں جلد چلنی ہونا شروع ہوجائیں گی۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کا تخمینہ 18سے 21 ارب ڈالرز ہے اور گزشتہ مالی سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18 ارب ڈالرز تھا، اسٹیٹ بینک کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں، ٹیکس ریفارمز کمیشن کی تجاویز سے اصلاحات کا آغاز کریں گے، برآمدکنندگان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ سپلیمنٹری بجٹ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جو بجٹ پیش کیا گیا تھا اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق ہمیں نظر نہیں آتا تھا تقریباً بل میں 900 ارب روپے کی غلطی تین مدوں کے اندر نظر آتی تھی۔میڈیا کو پتہ ہے کہ معیشت کی کیا صورتحال ہے اور کتنا شدید بحران کھڑا ہو چکا ہے یہ اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی ہے اندرونی کی اس سے اچھی کوئی غمازی نہیں ہوسکتی کہ سارے بینکنگ سسٹم سے پیسے لینے کے بعد بھی پیسے کم پڑ گئے تھے تو سٹیٹ بینک سے حکومت نے 1200 ارب روپے قرضہ لیا جس کو عرف عام میں نوٹ چھاپنا کہتے ہیں اس سے قبل جو بلند ترین لیول ملکی تاریخ میں ہوا تھا وہ چھ سو ارب روپے تھا ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت سارے اقدامات گورننس کو بہتر کرنے،بجلی کے نظام کے اندر اور گیس کے نظام کے اندر اور ایف بی آر ریفارمزکا پورا مربوط منصوبہ بن رہا ہے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ٹیکس نہیں دے رہے ہم نے ان سے ٹیکس لینا ہے اور دیگر سوفیصد اقدامات ایسے ہیں جو صاحب ثروت لوگوں کے حوالے سے ہیں کچھ ہم نے نان فائلر پر بوجھ ڈالا ہے جبکہ مہنگے سیل فونز، مہنگی امپورٹڈ اشیائ، خوردونوش اورمہنگی گاڑیوں کے حوالے سے صاحب ثروت لوگوں پر بوجھ ڈالا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہماری ایکسپورٹس بڑھ نہیں رہیں اور امپورٹس بڑھتی جا رہی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ خسارے کو قرضے لے کر پورا کررہے ہیں اور قرضے لے لے کر اس صورتحال تک پہنچ گئے ہیں کہ جب یہاں پر خطرناک حد تک ہماری صورتحال خراب ہو گئی ہے ہم قرضے صرف قرصے واپس کرنے کے لیے نہیں بلکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے ہم قرضے لے رہے ہیں ہمارے بیرونی قرضے ساٹھ 60ارب ڈالر سے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر گرتے چلے جا رہے ہیں جب تک ہم اپنے ایکسپورٹر کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کریں گے اور جب تک ہماری ایکسپورٹس واپس نہیں آئیں گی نہ تو ہم نوجوانوں کو روزگار فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی ڈالر پاکستان آ سکتے ہیں ہم نے ایل این جی کی قیمت کی مد میں پنجاب کی صنعت کو 44 ارب روپے کا ریلیف دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ مہینوں کے اندر بند فیکٹریاں چلنا شروع ہو جائیں گی اور لاکھوں نوجوان جو بیروزگار ہو گئے تھے ان کو روزگار ملے گا اور ہماری ایکسپورٹس کی کمائی میں اضافہ کیا جائے گا اسد عمر نے کہا کہ 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے افراد کو گزشتہ حکومت کی جانب سے ٹیکس استثنیٰ دینے کے اقدام کو برقرار رکھا ہے جبکہ دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے پر بھی ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا جبکہ دو لاکھ روپے سے زائد کمانے والے پر 2018-19ء کے بجٹ کی نسبت سے تھوڑا اضافہ ضرور کیا ہے جن لوگوں پر اضافہ کیا گیا ہے یہ پورے پاکستان میں 70 ہزار لوگ ہیں یہ امیر ترین لوگ ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ 1800 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں پر ہم فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا ہے اسد عمر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18.1 ارب ڈالر تھا اور رواں سال اگر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ 18 سے 21 ارب ڈالر کے درمیان ہوگا۔