اللہ کریم کی شان(2)
وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے اور تیسرا ایاز نے جو کہاتوسلطان محمود سنو ، ایا ز سیدہ زادہ ہے سید کی شان یہ ہے کہ سید اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلہ لینے کا کبھی نہیں سوچتا ، سلطان محمود اپنی کرسی سے اٹھا ، ایاز کو مخاطب ہو کر کہا ، ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سید ہو، ایاز کہنے لگا آج تک کسی کو اس کا علم نہ تھا کہ ایاز سید ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا ، میں بھی آج ایک راز کھول دیتا ہوں ۔ بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔
سائیں جی نے کروٹ بدلی ، اس دوران دو تین ایسے حاضرین پر نظر پڑی جو اپنے سمارٹ فون پر پیغام رسانی میں مصروف تھے، سائیں جی نے بھی اپنا فون نکالا ، پیغامات دیکھے اور واپس جیب میں رکھ لیا ۔ یہ صورت حال میرے لئے نہ صرف نئی تھ بلکہ حیران کن بھی ، حیرت سے پوچھا کہ سائیں لگتا ہے تبدیلی آگئی ہے ۔ آپ نے اس عمر میں کیا شوق پال لیا ۔ سائیں جی مسکرائے اور کہنے لگے ، یہ اتنی بری چیز نہیں ہے میں کافی شاکی تھا اس کے بارے میں لیکن آج ا س نے وہ نقطہ بڑی آسانی سے سمجھا دیا جو میں برسوں سے نہیں سمجھ پایا تھا۔ میری حیرانی اور استفسار پر سائیں جی بولے کہ میں دس بارہ دن سے دوستوں سے واٹس اپ پر رابطے میں ہوں جو دوست ایک دو دن رابطہ نہیں کرتے ان کے نام اور پیغامات نیچے چلے جاتے ہین اتنے نیچے کہ سکرول کرتے کرتے میرا ہاتھ تھک جاتا ہے اور جو رابطہ میں رہتے ہیں ان کے نام لسٹ میں سب سے اوپر رہتے ہیں ۔ عرض کیا یہی دستور ہے، اس کا تو ہمیں پہلے سے علم ہے ۔ سائیں جی مخصوص انداز میں بولے ’’ راجہ جی ، او سوہنیو‘‘ ایہوتے میں سمجھانا چاہ رہیا واں ، ہم سب کا رب ایک ہے جب ہم اس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اس کو یاد کرتے ہیں تو موجود لسٹ میںہمارا نام اوپر رہتا ہے لیکن جیسے ہی ہم غافل ہوتے ہیں ، یاد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ رابطہ ختم کرتے ہیں تو نہ جانے ہمارا نام لسٹ میں کہاں چلا جاتا ہے۔ اس لیے وقتا فوقتا اسے کسی نہ کسی طرح یاد کرتے رہو ۔ سائیں جی نے لنگر لگانے کا حکم دیا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جب تک لنگر لگتا ہے ایک اور واقعہ سناتا ہوں ۔ ایک دن مرحوم آخوند کاشی وضوکررہے تھے کہ ایک شخص بہت جلدی میں آیا ، تیزی سے وضو کیا اور نماز شروع کردی مرحوم آخوند کاشی بہت دقت سے آداب اور دعائوں کے ساتھ وضو کرتے تھے۔ قبل اس کے کہ وہ وضو ختم کرتے وہ شخص نماز ظہر پڑھ چکا تھا ۔ مرحوم آخوند اور اس شخص کا سامنا ہوا ۔ آخوند نے پوچھا ، کیا کررہے تھے؟ اس شخص نے کہا کچھ نہیں ۔ مرحوم آخوند، تم کچھ بھی نہیں کر رہے تھے ؟ شخص نہیں کچھ بھی نہیں ( وہ جانتا تھا کہ اگر کہے کہ نماز پڑھ رہا تھا تو مشکل میں پڑ جاتا ) مرحوم آخوند، کیا تم نماز نہیں پڑھ رہے تھے ؟ شخص، نہیں! مرحوم آخوند میں نے خود دیکھا کہ نماز پڑھ رہے تھے۔ شخص، آپ نے غلط دیکھا ہے ۔! مرحوم آخوند پھر تم کیا کررہے تھے ؟ اس شخص نے کہا ۔ بس آیا ہوں خد ا سے کہوں کہ ’’ میں باغی نہیں ہوں ‘‘ اس جملہ نے مرحوم آخوند کو بہت متاثر کیا ۔ بہت عرصے تک جب مرحوم آخوند سے ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ اپنی ایک خاص حالت میں کہتے ’’ میں باغی نہیں ہوں ‘‘ خدایا ہم خود جانتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں وہ تیری شایان شان نہیں ہیں ۔ ہمارے ’’ روزے، نماز یں کسی قابل نہیں ہیں ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان عبادات کے ذریعہ سے کہہ سکیں گے۔ خدایا ’ ’ ہم باغی نہیں ہیں ‘‘!!سائیں جی نے لنگر کے بعد بہترین دودھ پتی پلائی ۔ ڈھیر ساری دعائوں کے ساتھ بڑی گرمجوشی سے اسی انداز میں’’ راجہ جی اوسوہنیو ‘‘ چھیتی آیا کرو! کہہ کر رخصت کیا ۔
(ختم شد)