ڈیم، ڈیم اور صرف ڈیم
پانی قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ عالمی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے جہاں دیگر قدرتی وسائل دبائو کا شکار ہیں وہیں پانی کی کمیابی بھی آج بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ مختلف ممالک اس سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہیں، ڈیمز کی تعمیر بھی ان میں سے ایک ہے۔ ڈیمز جہاں ایک جانب پانی کی فراوانی کے دنوں میں اسے ذخیرہ کرنے اور سیلابوں سے بچائو کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں تو دوسری جانب قلت کے دنوں میں زراعت اور پینے کے لئے دستیابی کو بھی یقینی بناتے ہیں، سستی اور ماحول دوست بجلی کی پیداوار اضافی فوائد ہیں۔ پانی کی کمی اور سستی ماحول دوست بجلی کی قلت کے شکار اولین ممالک میں شمار ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ڈیمز کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے لیکن بعض ناخوشگوار ا حوال کے باعث وطن عزیز میں نئے ڈیمز کی تعمیر ایک خواب بن کر رہ گئی۔
یہ صورتحال اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی جب 4 جولائی 2018ء کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کرنے کے لئے ریفرنڈم کروانے سے متعلق آئینی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے اپنے مختصر حکم میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، واپڈا اور دیگر متعلقہ اداروں کو فوری طور پر مجوزہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا اور چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین کی سربراہی میں 9 رکنی عملدرآمد کمیٹی قائم کرنے کا حکم جاری کیا ہے، عدالت نے مذکورہ ڈیموں کی تعمیر کے لئے قوم سے چندہ دینے کی اپیل کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام چندے کی رقم جمع کرانے کے لئے اکائونٹ کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پانی کا مسئلہ ناسور بن سکتا ہے اور ہم اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ پانی کے نئے ذخائر بنانے کا تعلق ملک کی بقاء سے ہے جن منصوبوں پر اتفاق رائے موجود ہے ان پر فوری طور پر کام شروع کرنا چاہیے، پانی کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے، پانی کے بغیر ملک کی بقا مشکل ہو جائے گی، فنڈ قائم کر دیا، اتفاق ہو تو کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔ اس موقع پر وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ ہم کروڑوں ڈالر مالیت کا پانی ضائع کر رہے ہیں، سال میں 90 ملین ایکڑ پانی ضائع ہوتا ہے جبکہ ایک ملین ایکڑ پانی کی مالیت 50 کروڑ امریکی ڈالر ہے، تربیلا کے بعد ہمیں ہر دس سال بعد ایک نیا ڈیم بنانا چاہیے تھا۔
یہ حقیقت کسی تشریح اور تفصیل کی محتاج نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے نے اب ایک ایسی نوعیت اور صورت اختیار کر لی ہے جس کو بجا طور پر بھارتی آبی دہشت گردی کہا جا سکتا ہے۔ گذشتہ دنوں اس باب میں دونوں ممالک کے درمیان واٹر کمشنرز کی سطح کے مذاکرات ہوئے جن میں پاکستان انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے پاکستانی ٹیم کی قیادت کی جبکہ بھارتی و فد کی قیادت پی کے سیکسینا نے کی۔ لاہور میں ہونے والے ان مذاکرات کے دوران پاکستان اور بھارت اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ مذاکرات کے دوسرے روز بھارت نے پاکستان کے تمام اعتراضات مسترد کر دیئے اور پکل ڈل، لوئر کلنئی پراجیکٹ پر کام جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا جبکہ پاکستان نے بھارت کے 2 ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان نے کہا پکل ڈل اور لوئر کلنئی ہائیڈروپاور پراجیکٹس سے پانی کی کمی ہوگی، بھارت پکل ڈل پراجیکٹ کی اونچائی کم اور لوئر کلنئی منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرے جس پر بھارتی وفد نے وقت مانگ لیا۔بھارت کا کہنا تھا ہائیڈروپاور پراجیکٹ بنانا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں۔بھارت نے یقین دلایا کہ پاکستان کو پانی کی فراہمی متاثر نہیں ہوگی۔ بھارت نے پکل ڈل ڈیم اور لوئر گلنئی پر کام جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا جس کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار سمندر برد ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا موقف رہاکہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں بھی پانی کا ذخیرہ معاہدے کے خلاف ہے، سمندر کی نذر ہونے والے پانی کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں۔ دریائے چناب کے پانی پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق ہے، بھارت آبی ذخائر دریائے چناب پر نہیں بنا سکتا، پاکستانی حکام نے مطالبہ کیا کہ پکل ڈل پن بجلی گھر کی جھیل بھرنے اور وہاں سے پانی چھوڑنے کا پیٹرن بھی واضح کیا جائے اور پکل ڈل بجلی گھر کی اونچائی 5 میٹر کم کرتے ہوئے سپل ویز کے گیٹ سطح سمندر سے مزید 40 میٹر بلند رکھے جائیں۔بھارت دریائے چناب پر 1000 میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور 45 میگاواٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے جس پر پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی وفد کی طرف سے ہٹ دھرمی کا جو رویہ اختیار کیا گیا تھا وہ اس کی اپنے وطن واپسی سے پہلے ہی اس وقت یکسر تبدیل ہوگیا جب غیر متوقع اور حیرت انگیز طور پر بھارت نے لوئر کلنئی اور پکل ڈل پاور ہائوسز پر پاکستان کے اعتراضات تسلیم کر لئے ۔یہ بھی بتایا گیا کہ اب پاکستانی آبی ماہرین کا 2رکنی وفد ستمبر میں بھارت کا دورہ کرے گا۔ واقفان حال کے مطابق بھارتی وفد نے نئی دہلی روانگی سے قبل اپنی متعلقہ وزارتوں سے رجوع کے بعد جوائنٹ ڈیکلیریشن پر دستخط کر دیئے ہیں۔واضح رہے کہ 2013ء سے اب تک ان منصوبوں پر مذاکرات کے 7 ادوار ہو چکے ہیں، سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کا یہ 115 واں اجلاس تھا۔
دریں اثناء دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے اسلام آباد میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کی۔ اس موقع پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پانی ہر شخص کا حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ یہ پاکستان کے لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے، ملک میں پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ نئے ڈیم بنانا اشد ضروری ہے۔ ملاقات کے دوران چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ ان ڈیموں میں 90 لاکھ 30 ہزار ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ کیا جا سکے گا، 5300 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیموں کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کی صورتحال مانیٹر کر رہی ہے، لوگ دل کھول کر فنڈز میں حصہ ڈالیں۔ انہوںنے کہا کہ پانی کی قلت کو نئے ڈیموں کی تعمیر سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ اہل وطن کے لئے یہ مشاہدہ بجا طو ر پر مسرت انگیز اور قابل اطمینان ہے کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کی خاطر عوام فراخدلی کے ساتھ چندہ دے رہے ہیں۔ گویا ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کی خاطر ڈیمز کی تعمیر کا خواب مستقبل قریب میں شرمندہ تعبیر ہوگا۔