پیغام
منی بجٹ کا اعلان ہونے والا ہے ،جب بھی نئی حکومت قائم بنتی ہے تو اس کی اولین معاشی ترجیحات کا اظہار بجٹ کے ذریعے ہوتا ہے مالی سال 2018-19کا بجٹ مسلم لیگ (ن) کے دور میں منظور ہوا تھا ،آج جب کہ نئی حکومت قائم ہوچکی ہے اور اسے متنوع سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ان کے حل کے لئے سنجیدگی اور برد باری کی ضرورت ہے، نئی اپنی معاشی ترجیحات کا مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ میں ردو بدل کرنا چاہتی ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے بے روزگار ی کا خاتمہ، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے خاتمہ کو اپنی منزل قرار دیا تھا،حکومت کا ہنی مون دور اب ختم ہوا چاہتا ہے اور اسے سخت معاشی فیصلے کرنے کا مرحلہ درپیش ہے ،2013میں جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے اپنی وزارت کے ابتدائی ہفتے اس بات کو ثابت کرنے پر صرف کیے تھے کہ جتنی بھی خرابیاں اور معاشی بے اعتدالیاں موجود ہیں ان کی ذمہ دار پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اب جبکہ مسلم لیگ کی حکومت ختم ہو چکی ہے تو کچھ نیا نہیں ہوا حکومت بھی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ کو قرار دے رہی ہے، گزشتہ کسی دور میں پی ایم ہاوس سے مربہ کھانے والے گھوڑے برآمد ہوئے تو آج اسی جگہ سے بھینسیں منظر عام پر لائی گئی ہیں،کہنا صرف یہ ہے کہ جو اقتدار میں آ جائے وہ ہر نقص سے مبرا قرار پاتا ہے اور جو چلا جائے اس میں ہر برائی تلاش کر لی جاتی ہے،یہ کمزور معاشروں کی علت ہے، گزشتہ ایک ماہ میں جو بھی گفتگو وزیر اعظم ، وزیر خزانہ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے کی گئی اس کا زیادہ تر تعلق ’’کاسمیٹک ‘‘ہے اب تک کوئی ٹھوس قدم نظر نہیں آیا منی بجٹ وہ پہلی دستاویز ہوگی جس سے تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی منزل کا پتہ ملے گا ،پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں کوئی ناقابل حصول ہدف نہیں ہے اب جبکہ مالی سال کے نوماہ باقی ہیں تو عوام یقیناًیہ توقع کریں گے کہ پانچ سا ل میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں بجٹ کے زریعے کم ازکم دو لاکھ گھر فوری تعمیر کرنے کے وسائل مختص کیے جائیں گے اور ایک ایسی پالیسی متعارف کروائی جائے گی جس سے نجی شعبہ حوصلہ افزائی کے ذ ریعے تیس جون تک کم ازکم دولاکھ گھر زمین پر تعمیر شدہ نظر آئیں گے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ ڈرے ہو ئے ہیں،میاں نواز شریف کے دو ادوار میں ہائوسنگ کے بارے میں بہت بات ہوئی،گذشتہ دور میں تو اجلاس پر اجلاس ہوئے ، کچھ کام بھی ہوامگر اس بھاری پتھر کو چوم کر اس لئے چھوڑ دیا گیا کہ آئین بتا رہا ہے کہ یہ صوبائی سبجکیٹ ہے ،اس بارے میں اس وقت تک کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا جب تک صوبے ساتھ نہ ہوں،وفاق کی اس بارے میں ذمہ داری محدود ہے،اس سے پہلے کہ ہاوسنگ کے امور پر کچھ کیا جائے یہ ضروری ہے کہ اس معاملہ کو سی سی آئی میں لے جا کر اس پر اتفاق رائے کر لیا جائے ورنہ مشکل ہو گی، الہ دین کا چراغ نہیں کہ ایک کروڑ نوکریاں اچانک پلیٹ میں رکھ کر بیروز گاروں کے سامنے رکھ دی جائیں گی تاہم نوجوانوں کو یہ توقع ضرور ہے کہ بجٹ میں روز گار دینے کی ابتداء ضرور ہوگی اس کا پہلا مرحلہ فوری مکمل کیا جاسکتا ہے ،ایک دستاویز بتاتی ہے کہ سرکاری اداروں ، محکموں ، کارپوریشنوں میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں دستیاب ہیں، حکومت ان خالی اسامیوں کو پر کر کے اپنے وعدے کی تکمیل کی جانب قدم اٹھاسکتی ہے، منی بجٹ کا اعلان ہوناباقی ہے مگر اقدامات شروع ہیں ،بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھاری اضافہ کر دیا گیا ہے ، اس کا ایک اثر سیلز ٹیکس بڑھنے کی صورت میں نکلے گا، ’’گڈی،گڈی‘‘ سیزن اب ختم ہونے کو ہے ، منی بجٹ میں کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے،ان اقدامات کا نتیجہ افاط زر کی صورت میں نکلے گا،عوام مہنگائی کے طوفان کے لئے تیار رہیں،حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ نئی حکومت کے پاس بھی وسائل پیدا کرنے کا کوئی طریقہ نہیں،اس نے بھی آزمودہ نسخہ آزمایا ہے یعنی ٹیکس ریٹ بڑھا دو ،بجلی ،گیس کی قیمت میں اضافہ کر دو اور پیسے کما لو،بجلی اور گیس کی چوری رک جائے تو قیمت بڑھانے کی ضرورت نہ رہے مگر اس جانب کوئی نہیں آتا ہے، اس وقت علامتی بیانات میں اشارے مل رہے ہیں کہ سیاست غیر ہموار ہو رہی ہے، اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ استحکام کا سنگ میل ابھی دور ہے ، جس طرح کے شکوک سیاسی جماعتوں کے ذہنوں میں ہیں اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں جن آراء کا اظہار کیا جاتا ہے اس سے لگتا ہے کہ ذیادہ دیر تک ’’قابو‘‘ نہیں رکھا جا سکے گا ،حکومت نزاکت کو جتنی جلد سمجھ لے ،اظہار کو جتنابھی دبا لیا جائے،اس کا کبھی فائدہ نہیں ہوا ہے ،ایسی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جو پھر برسوں سلجھ نہیں سکتی ہیں،بہتری اسی میں ہے کہ پارلیمان کا کمیشن بنا لیا جائے جو ایک بار ساری انتخابی عمل کا جائزہ لے ،اور آئندہ کے لئے خرابی پیدا کرنے والے تمام سقم دور کئے جائیں،مسائل کا ایک پہاڑ سامنے ہے ،اس کو سر کرنے کا دعوی بھی کیا گیا ہے ،سب یہی چاہتے ہیں ،اس کے لئے بہترین عمل یہی ہے کہ غیر ضروری لڑائیاں مول نہ لی جائیں،جو بھی وجہ تنازعہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے،ورنہ وہی ہو گا کہ ساری نیک نیتی دھری رہ جاتی ہے اور ساری قوت اور وقت ان مسائل کے حل میں صرف ہو جاتا ہے جو خود اپنے پیدا کئے ہوتے ہیں،عوام انتطار کر سکتے ہیں،مگر ان کو ہر گزرتے دن کے ساتھ اچھا پیغام بہتری کی عملی صورت میں ملنا چاہئے ورنہ وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے اور تاریخ چند سطروں کے ساتھ ذکر کر کے آگے بڑھ جائے گی۔