’’حق وفاہم ادا کر چلے‘‘
موت ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے اپنا نہ ہوتے ہوئے بھی اپنوں سے بڑھ کر انس و تعلق کے سبب جب اس کے سفر جاودانی پر روانہ ہونے کی خبر ملتی ہے تو بے اختیا ر زبان پہ آتا ہے؎کاش اے موت ، تجھے موت ہی آئی ہوتی۔
مسکراتے چہرے، کشمیری جمال، انسانی مثبت خصوصیات ، نرم لہجہ، پر عزم حوصلہ، شفیق چھتر چھائوں کی حامل بیگم کلثوم نواز شریف اگرچہ ایک ایسے موذی مرض میں مبتلا تھیںاور ان کی بیماری اس مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ کہ ایسے میں لوگ کرامت کی توقع بھی چھوڑ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود منگل کو بھری دوپہر میں جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو یوں لگا جیسے گزشتہ کئی دنوں سے موسم کی حدت و شدت اسی جانب اشارہ کر رہی تھی اور پھر عین دوپہر کے وقت بے آب و گیاہ خود غرضی کے میدان میں ہم ایک سایہ دار چادر سے محروم ہو گئے۔
حق و صداقت کی سر بلندی اور سماجی عدل و انصاف کے حق کے لیے پابہ جولاں چلنا، پابند سلاسل ہونا، اسیری اور گوشہ قفس کی محبوسیت کوئی نئی چیز نہیں مگر ہر ایک داستا ن اپنے اندر ایک نیا پن لیے ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ خبر ایسے لمحات میں برداشت کرنی پڑی جب وہ ایک طرف توعدل فاروقیؓ کو صفحہ تاریخ پر دوام بخشنے والے سید نا حضرت عمر فاروق ؓ کے یوم شہادت کو منا رہے تھے دوسری طرف نواسہ رسول کی اپنے جانثاروں کے ساتھ اسلام کی حقانیت کو ہر قسم کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے معرکہ حق و باطل برارض کرب و بلا کے ایام کی سوگواریت میںتھے ۔ اور ایسے میںقافلہ جانثاراںوطن، معماران خوش حال پاکستان اور مفاداتی عدل وانصاف کے خلاف پوری توانائی سے جنگ کرنے والوں میں سے ایک شخصیت کا داغ َ مفارقت سہنا پڑا ۔
مرحومہ کے ساتھ اول اول سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بننے والا تعلق نہ جانے کب انتہائی ذاتی بن کر ہمارے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر گیا اور پھر ان کے بغرض علاج بیرون ملک جانے تک جب بھی بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو ہر بار ان کے دل کو مو ہ لینے والی شخصیت کا نرم لہجے میں دریافت احوال سے یوںلگتا تھا۔ کہ جیسے ہم سیاسی کارکن نہیں بلکہ ممتا کے شفیق گھنے سایہ دار درخت کی چھائوں میں زندگی گزارنے والے اسی کنبے کا حصہ ہیں۔ سو گواری کے اس عالم میں اس کو جن الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرنے کی میں خواہاں ہوں۔ شاید اس لمحے میرے قلم سے اگلتے لفظ وہ حق ادا نہ کر سکیں۔ لیکن آنے والے وقتوں میں جب نفرتوں کی دھول چھٹے گی۔جب مفاداتی آپا دھاپی دم توڑ چکے گی۔اور سماجی عدل و انصاف کے سورج کے آگے سے ہر قسم کی کثافت ہٹ جائے گی۔ ایک عام شہری کے چہرے پر بکھری آسودگی بھری پر اطمینان مسرت خوشحال پاکستان کی گواہ ہو گی تب ایسے میں وقت کا مورخ قافلہ ’’ہمارے اشک تمھا ری عاقبت سنوار چلے‘‘ کے سرفروشوں کی داستان حیات قلمبند کرنے بیٹھے گا تو ارض پاک کے لیے اپنی خدمت دیوانہ وار انجام دینے والی خواتین کی فہرست میں ایک کثیر الجہتی شخصیت بیگم کلثوم نواز شریف، جنہیں مرحومہ لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے، کے بارے میں مشکل سے ہی احاطہ اور احیطے کا فرض نبھا پائے گا۔
دکھ کے اس مرحلے پر مجھے احساس ہے کہ اسیران مفاداتی عدل و انصاف میاں نو از شریف اور م مریم نواز شریف پر کیا گزر رہی ہو گی جن کے حوصلوں اور ہمت کو سہارا دینے والی ایک مضبوط حصاری شخصیت کودست اجل نے بڑی بے رحمی سے اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ چہرے پرمسکراہٹ سجائے ، خدمت گزار وفا شعار اور ہر سرد و گرم میں شانہ بشانہ کھڑی رہنے والی شریک حیات کی ایسی جدائی میاں صاحب کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں اور مریم نواز جو ماں کی لاڈلی بیٹی تھی ماں بے خبری میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں یہ جانے بغیر کے ان کی گڑیا نا کردہ گناہ کی سزا بھگتے ہوئے اسیری میں شب وروز ماں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپ تڑپ کر گزار رہی ہے۔ ادھر ماں سوچتی رہیں کہ میں آخری سانسوں کی گنتی پوری کر رہی ہوں ایسی کون سی مصروفیت آن پڑی کہ میری بیٹی اور ’’بائوجی‘ میرے پاس آنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان آنے سے پہلے میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ کی محترمہ کلثوم نواز سے آخری ملاقات کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے۔ محترمہ مریم نواز کو ہمیشہ یہ قلق رہے گا کہ وہ آخری لمحات میںماں کی خدمت نہ کر سکیں۔ ان کے ساتھ وقت نہ گزار سکیں اگر وہ پاکستان آنے کا فیصلہ کچھ وقت کے لیے ترک کر دیتیں تو یہ افسوس انھیں نہ رہتا مگر دونوں باپ بیٹی نے اپنی قوم کے لیے، مادر وطن کے لیے اور خصوصاً اپنے دامن پر لگے داغ کو مٹانے کے لیے یہ مشکل ترین فیصلہ کیا۔ ہماری تاریخ کا بدترین المیہ ہے کہ ہمارے وطن کو سنوانے والوں اور اس پر حکمرانی کرنے والوں کو ہمیشہ بڑی قیمت چکانی پڑی۔ میںاس تحریر کے توسط سے صرف اتنا ہی کہوں گی کہ یقینا یہ شریف خاندان کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے مگر اس دکھ میں پوری قوم آپ کے ساتھ برابر کی شریک ہے ۔ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی شخصیت کا یہ خاصہ تھا کہ بدترین مخالفین بھی ان کے لیے احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ تاثرات ، جذبات اور دعائیں یقینا ان کی بخشش کی نشانی ہے۔ میاں صاحب اور محترمہ مریم نواز اور پورے خاندان کے لیے دعائیں کرنے والے ہاتھ نہیں رہے۔ مگر ریت خشک بھی ہو جائے تو اسکی نمی برقرار رہتی ہے ۔ یہ حصار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پورے کنبے کے گرد ہمیشہ قائم و دائم رہے گا اللہ تعالی انھیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطاء فرمائے۔ آمین
؎موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے