آئین کی آرٹیکل 56 کی ذیلی شق 3 کے تحت ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس سے خطاب کرنا ضروری ہے۔ اس لیے گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مشترکہ پارلیمنٹ سے 28واں خطاب کیا۔ مشترکہ اجلاسوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ مختلف صدور نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ پارلیمانی تاریخ میں 1985 سے 2017 کے درمیان 6 صدور نے 27 مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ سابق صدر مملکت ممنون حسین پانچ دفعہ خطاب کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے سابق صدر غلام اسحاق خان اور آصف علی زرداری نے چھ چھ مرتبہ، جنرل ضیاء الحق نے 5 مرتبہ، سابق صدر فاروق احمد خان لغاری اور سابق صدر رفیق احمد تارڑ نے دو مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ پرویز مشرف نو سالہ اقتدار میں صرف ایک مرتبہ 2004 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر سکے۔ مشترکہ اجلاس سے خطاب کی روایت سابق صدر ضیاء الحق کے 1985 میں پارلیمنٹ سے خطاب کے بعد شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ جبکہ پچھلے 33 سالوں کے دوران مملکت خداداد پاکستان کے 8 صدور (پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس) مجلس شوریٰ سے آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے 27 مرتبہ خطاب کر چکے ہیں جبکہ صدر ڈاکٹر عارف علوی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنیوالے 9 ویں صدر بن چکے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ’’نئے پاکستان‘‘ کے نئے آئین (1973ء ) کے نفاذ کے بعد گجرات کے چوہدری فضل الٰہی صدر بنے لیکن پروٹوکول کے لحاظ سے مملکت کا یہ سب سے بڑا منصب کسی اختیار سے محروم تھا۔ 5جولائی 1977 کو بھٹو صاحب رُخصت ہوئے لیکن جنرل ضیاء الحق نے چوہدری فضل الٰہی کو صدر کے منصب پر برقرار رکھا۔ ایوانِ صدر میں پانچ سال کی آئینی مدت مکمل ہونے پر رخصت ہوئے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 16ستمبر 1978ء کو صدر بنے اور پھر 1984ء میں ریفرنڈم کروایا اور منصب صدارت کے ساتھ جڑے رہے۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جناب محمد خاں جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا، تو 8ویں ترمیم کے تحت بعض اختیارات (جن میں 58/2Bکے تحت حکومت اور اسمبلی توڑنے اور چاروں سروس چیفس کے علاوہ گورنروں کے تقرر کا اختیار بھی شامل تھا) کے سوا، تمام اختیارات جونیجو صاحب کو سونپ دیئے۔ مگر 1988ء میں وہ شہید ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے 23 مارچ 1985 کو پہلی بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے یہ روایت ڈالی پھر 30 دسمبر 1985 کو دوسری بار ،8 جولائی 1986 کو تیسری مرتبہ، 19 اپریل 1987 کو چوتھی اور 7 اپریل 1988 کو پانچویں مرتبہ خطاب کیا، ضیاء الحق کی شہادت کے بعد 14 دسمبر 1988ء کو صدر غلام اسحاق خان نے پہلی بار، 2 دسمبر 1989 کو دوسری مرتبہ، 8 نومبر 1990 کو تیسری بار، 19 دسمبر 1991 کو چوتھی مرتبہ اور 22 دسمبر 1992ء کو پانچویں مرتبہ مجلس شوریٰ سے خطاب کیا۔ اس کے بعد 27 اکتوبر 1993ء کو وسیم سجاد نے بطورصدر خطاب کیا۔ 14 نومبر 1994ء کو فاروق احمد خان لغاری نے پہلی بار اور 29 اکتوبر 1995ء کو تیسری بار خطاب کیا۔ 1996ء میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ہی نہیں گیا اور 26 مارچ 1997ء کو فاروق لغاری نے تیسری بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، 23 فروری 1998ء کو رفیق احمد تارڑ نے بطور صدر مملکت پہلی مرتبہ، 11 مارچ 1999ء کو دوسری مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، مارچ 1999ء سے جنوری 2004ء تک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ہی نہیں گیا۔ 17 جنوری 2004ء کو پرویز مشرف نے بطور صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا جس میں ان کے مکا دکھانے کو ہدف تنقید بھی بنایا گیا تھا۔ 20 ستمبر 2008 کو بطور صدر آصف علی زرداری نے پہلی مرتبہ، 28 مارچ 2009ء کو دوسری مرتبہ، 5 اپریل 2010 کو تیسری مرتبہ، 22 مارچ 2011ء کو چوتھی مرتبہ، 17 مارچ 2012ء کو پانچویں مرتبہ اور 10 جون 2013ء کو چھٹی مرتبہ مجلس شوریٰ سے خطاب کیا، 2 جون 2014ء کو صدر ممنون حسین نے پہلی مرتبہ، 4 جون 2015ء کو دوسری مرتبہ، یکم جون 2016 کو تیسری مرتبہ اور 2017 میں چوتھی مرتبہ خطاب کیا۔ اس طرح 1985ء سے 1988ء تک ضیاء الحق نے 5 مرتبہ، غلام اسحا ق خان نے 5 مرتبہ، وسیم سجاد نے 1 مرتبہ، فاروق لغاری نے 3 مرتبہ، رفیق تارڑ نے 2 مرتبہ، آصف علی زرداری نے 6 مرتبہ اور ممنون حسین نے 3 مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ آصف زرداری اب تک واحد صدر ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 6 مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے آئینی تقاضا پورے کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
اب گزشتہ روز نئی اسمبلی سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پہلا خطاب کیا ہے جس میں انہوں نے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ گروہی مفادات اور بے انتہاکرپشن ہے، ان پر قابو پانے کیلئے احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ ، بدعنوانی سے پاک نظام ہے، توقع ہے حکومت ہر شعبے میں روڈ میپ کا تعین کریگی۔ نئے ڈیم بنائیں، شجرکاری پر توجہ دیں، پانی کا ضیاع روکیں، آب پاشی کا موثر نظام بنائیں، تعلیمی معیار بہتر بنائیں، آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہو گا، خواتین کو بااختیار بنانا ہو گا۔ میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر مواقع پیدا کرنا ہوں گے، بلوچستان کی ترقی پر خاص توجہ دینا ہو گی۔ ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کے لیے احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بطور رکن پارلیمنٹ اس ایوان سے میری وابستگی پرانی ہے، امید ہے ساتھی اراکین پارلیمنٹ میرا بھرپور ساتھ دیں گے، اراکین پارلیمنٹ کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے اس آئینی عہدے کے قابل سمجھا۔صدر مملکت نے کہا کہ صنعتیں بند ہیں ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے، ہماری برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں ہے، سرمایہ کاری کرنے کے عمل کو آسان بنایا جائے، چاہوں گا حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے۔
ڈاکٹر صاحب کو میں ذاتی حیثیت میں جانتا ہوں وہ ایک پرعزم شخص ہیں، یقیناً انہوں نے مشترکہ اجلاس میں جو باتیں کہیں وہ اُن پر خود بھی ضرور عمل پیرا ہوں گے اور اگلے پانچ سال فضل الٰہی، ممنون حسین جیسا صدر بننے سے بہتر وہ اپنے آپ کو فلاحی اور عوامی کاموں کے لیے وقف کر دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دنیا بھر کے 75فیصد ممالک میں صدور فعال رہتے ہیں۔ خیر اُمید یہی کرنی چاہیے کہ جو بھی اُمیدوار صدر بنیں وہ ’’ڈمی‘‘ صدر نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان کے لیے بیشتر خدمات ہیں، جبکہ عارف علوی کے لیے ہمدردیاں اس لیے بھی ہیں کہ وہ عمران خان کے وژن کو آگے لے کر چلیں گے۔ اور ویسے بھی عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل یہ بیان دے چکے ہیں کہ الیکشن جیت کر برسراقتدار آنے کے بعد صدارتی نظام حکومت کو اپنانا پسند کریں گے۔ وہ یہ بیان اس لیے بھی دے چکے ہیں کیوں کہ پارلیمانی نظامی کی وجہ سے قوم کو سیاست میں ان جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ طاقتور خاندانوں کو دیکھنا پڑتا ہے جنہیں پاکستانی روز اول سے میدان ِ سیاست میں گھوڑے دوڑاتے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب وزیراعظم عمران خان کے انتخاب کو درست ثابت کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024