زندگی میں ورائٹی لانے اور مل کر خوشی منانے کیلئے ایسے دن بہت ضروری ہیں مگر میں نے کبھی سالگرہ نہیں منائی۔ مجھے اپنے یوم پیدائش کا پتہ ہی نہیں۔ -16 ستمبر گزر جاتا ہے۔ جیسے دوسرے دن گزر جاتے ہیں مگر ہر دن میرے لئے ایک نیا دن ہوتا ہے۔ میرے آقا و مولا محبوب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے آج کا دن گزرے ہوئے کل کے دن سے مختلف نہیں ہے تو سمجھو کہ یہ دن تمہاری زندگی میں آیا ہی نہیں۔ یہ ایسی تخلیقی بات ہے کہ ز ندگی سے بھی زیادہ سوہنی گہری اورحیران کر دینے والی ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا ا ور مختلف ہونا چاہئے۔
دن تقریباً گزر گیا تھا کہ میرے بہت پیارے ماموں ڈاکٹر غلام اکبر نیازی اسلام آباد سے اپنی بہن میری بہت بوڑھی امی جان سے ملنے آ گئے۔ وہ لاہور آئیں تو میرے گھر پر ضرور آتے ہیں۔ ان کے ساتھ محمد عبداللہ خان نیازی بھی ہوتے ہیں۔ وہ میرے ماموں مرحوم غلام سرور خان کے بیٹے ہیں۔ جسے ہم (ملویر) کہتے ہیں جسے عام طور پر ماموں زاد کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ میرے کزن ہیں اور ہمارے ہاں یہ کوئی تخصیص نہیں۔ آپس میں سب بھائی ہوتے ہیں۔
اتنے میں میرے دل کے بہت قریب عمیرا ور ا س کی بہن عمارہ بھی آ گئے۔ اُن کے ہاتھ میں میرے لئے تحفے تھے۔ ایک بہت مزیدار کیک بھی تھا۔ بیٹی مائرہ نے دو سوٹ کے کپڑے بھجوائے۔ دوسرا سوٹ میری اہلیہ کے لئے تھا۔ شکریہ مگر اہلیہ کے لئے جو سوٹ تھا وہ میرے سوٹ سے سوہنا تھا؟
تحفہ کچھ بھی ہو، اچھا ہوتا ہے۔ محبت سے بڑا تحفہ کوئی نہیں ہوتا۔ بیٹی عمارہ عرفان اورعمیر خالد کا آج کے دن گھر آ جانا بھی ایک تحفے کی طرح ہے۔ ماموں اور بھائی کو تو علم ہی نہ تھا۔ وہ جب آتے ہیں ، اپنی بہن میری ماں کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ آج مجھے بھی پانچ ہزار روپے کا نوٹ مل گیا۔ اس لئے میں ا’ن کا عمارہ اور عمیر اور رفعت خانم کا شکر گزار ہوں۔
ہم اپنی عمر کے آغاز میں اپنے ابا مرحوم محمد کریم داد خاں نیازی کرمچی ابا سے بہت متاثر تھے مرعوب بھی تھے۔ وہ اعلیٰ ذوق کے آدمی تھے۔ اُن کو ہزاروں اشعار یاد تھے مگر محکمہ پولیس کی ملازمت نے انہیں ذہنی طور پر پسپا کر دیا تھا۔ اُن کے ہونے سے کوئی بھی محفل آباد ہو جاتی تھی۔ وہ بھی سالگرہ کے لئے بے نیاز تھے۔
پہلی بار میری سالگرہ ایک بہت اچھی دوست خاتون شاعرہ فوزیہ مغل نے زبردستی منا ڈالی۔ وہ آجکل جرمنی میں ہوتی ہے۔ کل ہی میری سالگرہ کے دن اس کا فون آیا۔ اُس نے کہا کہ میں یہاں آپ کی سالگرہ منا رہی ہوں اور کسی موقعے پر آپ کو بھی یہاں بلائوں گی۔ جب فوزیہ مغل پاکستان میں میری سالگرہ منانے کے لئے بہت سنجیدہ ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نے کبھی سالگرہ نہیں منائی۔ اس نے کہا مگر میں تو منائوں گی۔ آپ نہیں آتے ہو تو میں سٹیج پر آپ کی تصویر رکھ دوں گی اور تقریب ہوجائے گی۔ میں نے کہا کہ میرے جیتے جی یہ نہ کرو۔
میں چلا گیا اور سالگرہ ہو گئی۔ مگر مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کس نے میرے بارے میں کیاکہا اب تو میںپھنس گیا ہوں کہ میرے نواسے محمد فضیل نیازی کی سالگرہ بھی 16 ستمبر کو ہے اور اس کے ماں باپ میری اور بیٹے کی سانجھی سالگرہ منا لیتے ہیں۔
بیٹی عمارہ اور عمیر خالد کے ساتھ مل کر میری سالگرہ منائی گئی۔ عمیر بہت قربانی دینے والا نوجوان ہے۔
اس کی بیوی مائرہ بہت زبردست ورکنگ لیڈی ہے اور گھریلو مزاج بھی رکھتی ہے۔ تھیلسمیا کے مریض بچوں کو اُم نصرت فائونڈیشن سے بہت آرام ملتا ہے۔ ایک بچے کی یہاں اس طرح سالگرہ منائی گئی کہ اسے خون لگا ہوا تھا اور دفتر کے بہت لوگ اس کی چار پائی کے ارد گرد کھڑے تالیاں بجارہے تھے۔ اس پر تازہ پھولوں کی برسات ہوئی تو وہ مسکرا دیا۔ یوں سالگرہ ہو گئی اگر ایسا ہی جذبہ سب لوگوں میں پیدا ہو جائے تو کمال ہو جائے۔ دکھوں سے بھری ہوئی یہ دنیا جنت بن جائے میں اکثرکہتا ہوں کہ بچے جنت کے باشندے ہیں ۔یہ مواقع بہت ضروری ہیں کہ زندگی میں کچھ رونق آئے۔
شام کو نعیمہ اور ذوالقرنین نے اپنے گھر میں کچھ اہتمام کیا ہوا تھا۔ انہوں نے پہلے بھی ایک بار میرے لئے یہ اہتمام کیا تھا۔ یہاں میرے قبیلے کے سردار اور منفرد نامور شاعر منیرنیازی اس گھر میں بہت آتے جاتے تھے۔
بہت مقبول شاعر احمد فراز بھی نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر قیام کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان دونوں بڑے شاعروں میں رنجش سی بنائی ہوئی تھی۔ ذوالقرنین کا ارادہ تھا کہ وہ کسی دن احمد فراز کو منیر نیازی کے پاس لے جائیں گے اور دوریاں ختم ہو جائیں گی مگر منیر خان کسی اور گھر چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر میں بڑی محفلیں ہوتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی دوستوں کو اکٹھا کر ہی لیتے ہیں۔ پنجابی کے معروف اور محبوب شاعر مدثر اقبال بٹ نے دوستی اور شاعری کی ساری سرحدوں کو ملا کر ایک بستی بنائی ہے۔ وہ بھی نعیمہ اور ذوالقرنین کے گھر بہت رابطہ رکھتا ہے۔ آج کل وہ کچھ بیمار ہے مگر وہ دوستوں کو بھلاتا نہیں بہت دبنگ اور پیار کرنے والا آدمی ہے۔ میں نے اسے اور ’’پلاک‘‘ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف کو کبھی پنجابی کے علاوہ کسی زبان میں بولتے نہیں سنا۔ مگر کسی طرح کا تعصب انہیں چھو کر نہیں گیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024