اگرچہ پیر کی شام صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کے موقع پر اپوزیشن نے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم نہ کیے جانے کے خلاف اپنا احتجاج تو ریکارڈ کرایا لیکن اپوزیشن نے کوئی ’’کھڑاک ‘‘ کیا اور نہ ہی شور شرابہ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو کیا گیا ٹیلی فون کام دکھا گیا۔ میاں شہباز شریف علالت کے باعث پارلیمنٹ ہائوس تشریف نہیں لائے البتہ مسلم لیگ ن نے اجلاس میں ہلکا پھلکا احتجاج کر کے واک آئوٹ کر دیا۔بلاول بھٹو زرداری اور سراج الحق بھی ایوان میں موجود تھے لیکن انھوں نے اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن ، ایم ایم اے، اے این پی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے بائیکاٹ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔ پیر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر جہاں پیپلز پارٹی بری طرح ایکسپوز ہو گئی وہاں جماعت اسلامی بھی ایم ایم اے کا حصہ ہونے کے باوجود اپوزیشن سے فاصلے پر کھڑی نظر آئی۔ جماعت اسلامی نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر احتجاج نہ کر کے اپنے آپ کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کی پارلیمانی قوت برائے نام ہے لیکن جماعت اسلامی کی قیادت کا احتجاج سے الگ تھلگ رہنے پر پارلیمانی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاسکا انعقاد اور صدر مملکت کا خطاب آئینی تقاضا ہے، ماضی میں مختلف صدور کے پارلیمنٹ میں خطاب کے موقع پر اپوزیشن احتجاج کرتی رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کے خطاب کے موقع پر ہونے والے احتجاج نے انھیں پارلیمنٹ کا راستہ بھلا دیا۔ وہ پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے لئے مختص چیمبر میں تو بیٹھتے رہے لیکن ایوان کا رخ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب پارلیمانی روایت ہے جس میں صدر مملکت دھوم دھام سے خطاب کرنے کے لئے آتے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں صدر کے خطاب کو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن اہمیت دیتی ہے۔ پورا سال گزر جاتا ہے مگر صدر کے خطاب پر بحث نہیں کرائی جاتی۔ اگر بحث کرائی بھی جاتی ہے تو اسے پارلیمنٹ پر بوجھ سمجھ کر نپٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس طرح کا سلوک سابق صدر ممنون حسین کے ساتھ کیا جا چکا ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار تقریر کی، اس کے بعد انھیں پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں صدر کے خطاب پر بحث کے بعد شکریہ کی قرارداد منظور کر کے ان کی پارلیمنٹ میں تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024