فیصلہ کن معرکہ چونڈہ ، 18/19ستمبر 1965ء
سیالکوٹ سیکٹر میں لڑائی کو دس دن گزر چکے تھے ۔ گھمسان کی لڑائی میں دونوں اطراف سے سینکڑوں ٹینک اور انسان لقمہء اجل بن چکے تھے۔ بھارت کا بکتر بند ڈویژن ریلوے لائن چونڈہ ۔ سیالکوٹ تک پہنچ گیا تھا۔ بھارت کیلئے چونڈہ شہر جو مواصلات کا مرکز ہے اس پر قبضہ کرنا ضروری تھا تاکہ مزید بڑھ کر پسرور اور گوجرانوالہ تک پیش قدمی کر سکیں۔
چونڈہ کا دفاع پاکستان انفنٹری کا نمبر 24بریگیڈ گروپ کررہا تھا۔ اس بریگیڈ کا کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی ملک تھا۔ اس میں تین انفنٹری کی پلٹنیں تھیں۔ نمبر2 پنجاب رجمنٹ، نمبر14بلوچ رجمنٹ اور نمبر3 فرنٹیئر فورس رجمنٹ ۔ ان کے علاوہ نمبر25 کیولری رجمنٹ بھی تھی۔ اس بریگیڈ نے چونڈہ کا دفاع ایک صندوق کی مانند لیا ہواتھا۔ جبکہ پاکستان کی باقی فوج دائیں بائیں تعین تھی۔ بھارت کے بکتر بند ڈویژن نے چونڈہ پر پہلا حملہ 17ستمبر کو کیا تھا اور اُنہیں ریلوے لائن سے آگے گائوں بتڑ ڈوگراں دی تک جزوی کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی لیکن جوابی کاروائی کی وجہ سے انہیں پسپائی کرنی پڑی۔ اب دونوں فوجیں ریلوے لائن کے آر پار مورچہ زن تھیں۔ بھارت کی بکتر بند فوج وزیر والی، الہڑ ریلوے سٹیشن پر قابض تھی اور مزید آپریشن کرنے سے انکاری تھی۔ بھارتی کورکمانڈر نے نمبر6 پہاڑی ڈویژن جس کا کمانڈر دوسری جنگ عظیم کا ہیرو جنرل کورلا تھا اُسے چونڈہ پر قبضہ کرنے پر مامور کیا۔ اُس نے اپنے ڈویژن کے دو بریگیڈوں کو 18/19کی رات کو حملہ کرنے کا منصوبہ اس طرح بنایا :۔
35 انفنٹری بریگیڈ ۔ غربی جہت سے حملہ کر کے جسوراں گائوں سے ہوتے ہوئے چونڈہ ریلوے سٹیشن اور ریسٹ ہائوس پر قبضہ کرنا ۔ اس علاقے کا پاکستانی 3ایف ایف رجمنٹ دفاع کر رہی تھی۔
58انفنٹری بریگیڈ ۔ شمال غربی جہت سے حملہ کرنا اور چونڈہ کے شمالی حصے پر قبضہ کرنا۔ اس علاقے کا دفاع پاکستانی14بلوچ رجمنٹ کر رہی تھی۔ 98 بریگیڈ ۔ ڈویژن کا ریزرو بریگیڈ تھا جو دوسرے بریگیڈوں کی کامیابی کے بعد پاکستانی بریگیڈ کی (mopping up) صفائی وغیرہ کرنے کیلئے تیار کررکھا تھا۔
بھارت کے پاس اس کام کیلئے کل نفری 15ہزار تعداد تھی جبکہ پاکستان کے یہاں دفاع کیلئے صرف ایک ہزار نفری مامور تھی۔ پس تناسب دس گنا زیادہ تھا۔ اس لئے بھارتی کمانڈروں کو خوش فہمی تھی کہ وہ کامیاب ہو جائینگے اور اُن بکتر بند ڈویژن آگے پیش قدمی کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار تھا۔ چونکہ لڑائی میں آپریشن خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ اس لئے اس بھارتی آپریشن کا پاکستانی افواج کو کوئی علم نہ تھا۔ البتہ احتیطاًََ وہ ہر صورت دفاع کیلئے تیار تھے۔ لڑائیوں میں نفری کے علاوہ اور بہت سارے عنصر ہوتے ہیں جو آپریشنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا عنصر یہ کہ پاکستانی افواج جہاد فی سبیل اللہ پر یقین رکھتی ہے اور اللہ ہماری غیبی امداد کرتا ہے جن کو ہم ’’کرامات‘‘ کہتے ہیں ایسی کرامات متعدد بار واقع پذیر ہوئی تھیں جن میں سے کچھ کا ذکر بعد میں کیا جائیگا۔
بھارتی 35 بریگیڈ کا حملہ ۔(حصہ اول ) بھارت کی نمبر20 راجپوت بٹالین نے رات کے تقریباًََ9بجے گائوں جسوراں پر قبضہ کرنا تھا جو 18ستمبر دن بھر خالی تھا۔ پاکستانی فوج (3FF) نے (بھارت کے منصوبے کو نہ جانتے ہوئے ) 18ستمبر کی شام کو جسوراں پر قبضہ کرلیا تھا اور ساتھ ہی جسوراں کے راستے میں کچھ نفری تعین کردی۔ جب بھارت کی نمبر20 راجپوت حملے کیلئے آئی تو اُن کی نہایت ماہرانہ طریقے سے نشاندہی کی گئی اور اُن کے حملے پر بھرپور فائر کرکے اُسے ناکام بنادیا گیا۔ 20راجپوت کا کمانڈر ماراگیا اور حملہ آور اپنی لاشیں چھوڑ کر تتربتر ہو گئے۔ اس حملے میں Aکمپنی کمانڈر کیپٹن رحیم شاہ (جو بعد میں بریگیڈیئر بنے) کمپنی کمانڈر کیپٹن شفیق احمد اعوان (جو بعد میں میجر جنرل بنے) اور Dکمپنی کے نائب کیپٹن عبدالوحید کاکڑ ( جو بعد میں جنرل اور پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف بنے ) اُنہوں نے ذاتی طور پر کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔
بھارتی بڑا حملہ ۔(حصہ دوم ) بھارتی بریگیڈکی ایک پلٹن نمبر6مرہٹہ رجمنٹ اور دوسری نمبر5جموں کشمیر رجمنٹ نے رات کے ایک بجے مل کر حملہ کرنا تھا۔ اول الذکر نے چونڈہ ریلوے سٹیشن پر قبضہ کرنا تھا جبکہ دوسری پلٹن نے گائوں جانیوالی اور چونڈہ ریسٹ ہائوس پر اس حملے سے پہلے اللہ کی کرامت یوں ہوئی کہ تقریباََ 12بجے رات 3ایف ایف کی Dکمپنی نے اپنی آگے والی جگہ چھوڑ کر گائوں جانیوالی کے پاس دفاعی پوزیشن اختیار کر لی تھی ۔ (اُنہیں پتہ نہ تھا کہ یہاں حملہ ہونے والا ہے) رات ایک بجے جب نمبر5جموں کشمیر بٹالین نے حملہ کیا تو یہ کمپنی اُن کو تباہ کرنے کیلئے تیار تھی۔ 5جموں کشمیر بٹالین کا ایک کمانڈر لیفٹیننٹ چوہان کیپٹن شفیق کے ہاتھوں مارا گیا تھا اور اُن کے باقیماندہ حملہ آور لاشیں چھوڑ کر اور ہتھیار پھینک کر تتر بتر ہو گئے تھے۔ بھارتی نمبر6 مرہٹہ بٹالین حملے میں کامیابی کے ساتھ چونڈہ ریلوے سٹیشن پہنچ گئے جہاں پاکستانی 3ایف ایف رجمنٹ کا بٹالین ہیڈکوارٹرز تعین تھا ۔ وہاں دست بدستی (CQB)جنگ ہوئی جو دو گھنٹے جاری رہی۔ پاکستانی نفری کی ایک تہائی کمی کے باوجود از حد دلیری سے لڑے جس میں کرنل محمد اکبر صدیق ، لیفٹیننٹ رائو محمد طارق (جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنے) ، صوبیدار میجر نذیر الرحمن اور ڈاکٹر محمد قیس بنگش نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ بھارت کی بیسیوں لاشیں ، 46قیدی کردیئے گئے اور صبح پو پھٹنے پر مرہٹے دُم دبا کر واپس بھاگ نکلے۔ اس طرح بھارت فوج کے نمبر35انفنٹری بریگیڈ کے تینوں حملے ناکام رہے۔
بریگیڈ نمبر58 ۔بھارت کے نمبر6ڈویژن دوسرے بریگیڈ نے گائوں الہڑ کی طرف سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ مل کر نمبر14بلوچ پر حملہ کرنا تھا ۔ جس کا وقت رات ایک بجے تھا۔ اس بریگیڈ کی پہلی پلٹن نمبر4جموں کشمیر رجمنٹ ، نمبر14بلوچ کی Cکمپنی پر حملہ آور ہوئی لیکن اُس نے بلوچیوں کو دفاع کرنے کیلئے مکمل تیار پایا۔ کشمیری رجمنٹ ناکام ہو کر اور اپنی لاشیں چھوڑ کر واپس بھاگ نکلے۔
اس بریگیڈ کی دوسری پلٹن نمبر14راجپوت رجمنٹ کی کارکردگی مضحکہ خیز رہی ۔ اللہ کے کیا کرنے کہ وہ حملہ کرنے کی خاطر راستہ بھول گئے اور بھارتی فوج کی نمبر5جاٹ رجمنٹ اور بکتر بند سکواڈ رن جو گائوں وزیر والی پر تعین تھے اُن میں جاگھسے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر فائر کا تبادلہ کیا اور دونوں ڈر سے بھاگ نکلے۔ اس بریگیڈ کی تیسری پلٹن نے کوئی کاروائی نہیں کی تھی۔ پاکستانی نمبر14بلوچ کے کرنل شنواری (جو بعد میں بریگیڈ یئر بنے) اور کیپٹن علی زئی (جو بعد میں کرنل بنے) نے کارہائے نمایاں ادا کئے چونکہ یہ حملے رات کے وقت ہوئے تھے اس لئے دونوں اطراف سے ٹینکوں کا استعمال نہ ہو سکا اور چونکہ بھارتی حملہ آوروں کی نشاندہی بر وقت نہ ہو سکتی تھی اور مزید یہ کہ حملے میں دونوں افواج ایک دوسرے کے نزدیک ہو کر حملہ اور دفاع کر رہی تھیں اس لئے دونوں اطراف سے تو پ خانے کا استعمال بھی نہ ہو سکا تھا۔ پس یہ حملے کرنے والے دو پیادہ بریگیڈ اور دفاع کرنے والی دو پیادہ پلٹنوں کا مقابلہ تھا۔ جس میں بھارتی حملہ آور دونوں بریگیڈ مکمل طور پر ناکام اور پاکستانی دونوں پلٹنیں سرخرو اور کامیاب رہیں۔ ایسی کامیابی جنگوں کی تاریخ میں شاذونادر واقع ہوئی ہیں۔ ایسا کارنامہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی غیبی امداد اور غیبی رہنمائی کے بغیر نہیں ممکن تھا۔ اس کامیابی کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ بھارت نے آگے بڑھنے کے ارادوں کو مکمل طور پر ترک کردیا۔ بلکہ اُنہیں پاکستان کی طرف سے پیش قدمی اور اپنے دفاع کا خطرہ محسوس کیا۔ اس وقت یعنی ستمبر کی 19تاریخ تک پاکستان ہوائی فوج نے بھارتی ہوائی فوج پر برتری حاصل کر لی تھی اور پاکستانی فوج اس پوزیشن میں تھی کہ جوابی حملے اور پیش قدمی کر کے نہ صرف بھارتی فوج کو اپنی سرزمین سے پیچھے دھکیل دیتے بلکہ علاقہ جموں کا کچھ علاقہ قبضہ میں کر لیتے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کو ملٹری ایڈبند کرنے کا اعلان کر رکھا تھا کیونکہ اُن کے ہتھیار سوویٹ روس سے آئے ہوئے تھے۔ اس کے برعکس پاکستان کے سب ہتھیار ، ٹینک ، جہاز ، ایمونیشن امریکی ساخت کے تھے۔ اُن کی کمک کے بغیر لڑائی کو طول دینا نامناسب سمجھا گیاتھا۔ امریکہ کا یہ اعلان پاکستان کی پیٹھ میں چھُرا گھونپنے کے مترادف تھا۔ اسی لئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے کتاب لکھی تھی جس کا نام Friends Not Mastersرکھا تھا۔ پس دونوں متحارب ممالک نے اقوام متحدہ کی وساطت 22ستمبر کو جنگ بندی قبول کر لی تھی۔