چاند ہے زرد زرد اور سورچ بپھرا ہوا…
دائودخیل میں خوشحال خان ایکسپریس پٹڑی سے اتر گئی۔ ریل گاڑی کا انجن اور بوگیاں الٹ گئیں۔ 21 سالہ مسافر بری طرح زخمی ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں گزشتہ پندرہ برسوں میں ریلوے کے اس قدر حادثات ہو چکے ہیں کہ ریلوے حادثات کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہر سال ریلوے کو بجٹ میں اربوں روپے دیئے جاتے ہیں۔ ریلوے کی اپنی اربوں روپے کی آمدن ہے‘ لیکن جو ریلوے پٹڑیاں ‘ انگریز بچھا گیا تھا‘ وہ آج تک نہیں بدلی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ ان پٹڑیوں‘کی مرمت تک نہیں کی گئی ہے۔ پٹڑیاں اس قد بوسیدہ ہیں کہ انہیں کوئی کباڑیا بھی خریدنا پسند نہ کرے۔ (ن) لیگ کے زمانے میں ریلوے کی پٹڑیاں‘ انجن اور بوگیاں تک چوری کرکے فیکٹریوں میں پہنچائی گئیں۔ خواجہ سعد رفیق نے صرف پراپیگنڈا کیا‘ لیکن کوئی نئی ریل گاڑی متعارف نہ کرائی۔چیف جسٹس کو چاہئے کہ جتنے بھی سابقہ وزیر مشیر ہیں‘ ان کے اثاثوں اور ذرائع آمدن کی جانچ پڑتال کرائیں۔ جن کے پاس چند لاکھ بھی نہیں تھے‘ آج وہ اربوں کھربوں کے کیسے مالک بن گئے۔ لوگوں کی زندگیاں عذاب میں ڈال رکھی ہیں۔ خود تو ہیلی کاپٹروں‘ جہازوں‘ طیاروں اور مرسڈیز‘ بی ایم ڈبلیو‘ پروٹوکول اور سکواڈ کے ساتھ مزے سے سفر کرتے ہیں اور عوام کی زندگی موت کے منہ میں جھونک رکھی ہے۔ خود شیخ رشید نے ابھی تک آکر کونسا تیر مارا ہے۔ لوگوں کو وائی فائی‘ انٹرنیٹ کی ضرورت تو تب ہوگی جب وہ زندہ بچیں گے۔ ریلوے لائن درست کرانا حکومت کا کام ہے‘ لیکن ابھی تک صرف باتیں‘ دعوے‘ ہی سننے کو مل رہے ہیں۔ پاکستان میں عوام کو حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ وہ ہر وقت اور بلاجواز ٹیکس دیتے رہیں۔ ہر وقت اپنے خون پسینے کی کمائیاں ان کی عیاشیوں کیلئے نکالتے رہیں۔ شہبازشریف نے پورے لاہور کا نقشہ ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ کسی نے پلیٹ کر نہیں پوچھا کہ تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ تم لاہور کی اصلی شکل بگاڑ دو۔ کھربوں روپیہ گارا مٹی کر دیا۔ آخر یہ حق اسے کس نے دیا؟ چاہے کوئی وزیراعلیٰ ہو یا گورنر‘ وزیراعظم ہو یا صدر‘ کسی بھی صورت مطلق العنانیت نہیں دکھا سکتا۔ اپنی کم علمی‘ نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی‘ کروڑوں لوگوں پر مسلط نہیں کر سکتا۔ حکومت کام کرنے کا نام ہے۔ ملک کا نقشہ بگاڑنے اور قومی خزانہ برباد کرنے کا نہیں۔ چند چند سال کیلئے آنے والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کی صورت بگا دیں۔ امریکہ‘ انگلینڈ‘ چین‘ جاپان کی اندھادھند نقل کرنے کی کوشش کریں۔ پینے کا صاف پانی تو دے نہیں سکتے‘ پل اور پلیاں بنانے کا شوق ہے۔
پورے پنجاب میں کیمیکل کافور ملا دودھ کھلے عام بک رہا ہے جس سے کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گائے‘ بکری کے گوشت کے بجائے گدھوں‘ کتوں‘ بلیوں کا گوشت بیجا جا رہا ہے۔ کھانے کی تمام اشیاء میں کیمیکلز شامل ہیں۔حد تک یہ ہے کہ دالوں‘ سبزیوں‘ پھلوں میں ایسی ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے کہ وہ بے موسم بھی اگ آتی ہیں اور انتہائی کم مدت میں اگ جاتی ہیں۔ یہ انتہائی مضر صحت ہیں۔ پاسکتان میں ملاوٹ اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔ ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ آٹے کا جو تھیلا دس کلو کا ہوتا ہے‘ اس میں آٹا پورا دس کلو نہیں ہوتا۔ بمشکل نو یا آٹھ کلو ہوتا ہے۔ اسی طرح آئل یا شیپمو کی جو مقدار بوتل یا پیکٹ پر درج ہوتی ہے‘ وہ ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ مثلاً آئل کا ایک کلو کا پیکٹ تول کر دیکھ لیں‘ وہ ایک کلو سے کم کا ہوتا ہے۔ شیمپو کی بوتل پر جو نیٹ ویٹ درج ہوتا ہے‘ شیمپو اس سے کافی کم ہوتا ہے۔ہر وہ چیز جو پیکنگ میں ملتی ہے‘ اس میں موجود اشیاء کی مقدار لکھے گئے وزن سے کم ہوتی ہے‘ لیکن کوئی ان کمپنیوں کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر بار انتہائی چالاکی سے پیکٹ یابوتل کا سائز کم کر دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اور یوٹیلٹی سٹورز پر جب بل بنائے جاتے ہیںتو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کسی بھی سٹورسے دس پندرہ یا سو پچاس آئٹمز خریدتا ہے۔ بل بناتے وقت دو تین جگہ فالتو چیزوں کا بل ڈالا جاتا ہے یا بعض کے آئٹمز کی قیمت میں چار پانچ سو کا زائد اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی نے بیس یا تیس آئٹمز خریدے تو اس میں دو آئٹمز اور ڈال کر پیسے بڑھا دیتے ہیں۔اگر اس آدمی کا بل چوبیس ہزار بنا ہے تو اس کا اصل بل اکیس یا بائیس ہزار ہوگا‘ لیکن رسید چوبیس ہزار کی بنا دی۔ اس طرح کسٹمر سے دو یا تین ہزار زائد لے لئے۔ اس مصروف دنیا میں لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ بل کے ہر آئٹم کو چیک کریں۔ چنانچہ ہر سٹور پر ہر پاکستانی کو لوٹا جاتا ہے۔
پٹرول پمپ پر جائیں تو آپ کہتے ہیں کہ دو ہزار یا پانچ ہزار کا پٹرول ڈال دو۔ گاڑی میں دو ہزار کی جگہ صرف پندرہ سو کا پٹرول ڈال کر دو ہزار لے لیتا ہے یا پانچ ہزار کی جگہ چار ہزار کا پٹرول ڈال کر پورے پیسے وصول کر لیتا ہے۔ جس چیز کی اصل قیمت بیس روپے ہے‘ دکاندر وہ چیز آپ کو پچاس یا پچھتر میں فروخت کر دیتا ہے۔ آپ کس کو شکایت کریں۔ کس سے گلہ کریں۔ کس کے پاس جائیں۔ صارف عدالتوں کے پاس کس کس کی شکایت لیکر جائیںگے۔ سو دو سو روپے یا پانچ دس ہزار ے نقصان کیلئے کون اپنا قیمتی وقت اور دماغ خرچ کرے گا لہٰذا ہر آدمی جل بھن کر صبر کر لیتا ہے کیونکہ ہر چیز پر صارف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ممکن نہیں۔
ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان میں ہر آدمی دوسرے کو لوٹ رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں خود کشی کی شرح خوفناک حدوں کو چھو چکی ہے لوگ ہر وقت ٹینشن ، ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار ہیں ۔ نہ یہاں روزگار ہے نہ یہاں آسانیاں ہیں ۔مہنگائی ، ٹیکس اور غربت نے لوگوں کو اضطرابی مریض بنا دیا ہے۔ یہاں نہ ہوائی سفر محفوظ ہے نہ سمندری سفر اور نہ بائی روڈ انسان محفوظ ہے ۔ ہر روز درجنوں لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے جاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس میں صرف چالان کاٹنے پر مامور رہتی ہے اور اپنی جیبیں گرم رکھتی ہے۔ ٹرک ٹرالے اور بڑی بڑی بھاری گاڑیاں جو رات بارہ بجے کے بعد چلنی چاہئیں۔ وہ دن بھر دندناتی پھرتی ہیں لیکن یہ گاڑی بھگا رہے ہوتے ہیں سڑک کو تباہ کرکے اور اعصاب شل کرکے رکھ دیتی ہیں ۔کیا ٹریفک پولیس کا فرض نہیں کہ وہ تمام چینلز پر ٹریفک رولز سمجھائے ۔ لوگ بیچ سڑک میں گاڑی روک کر پھل سبزی خریدنے لگتے ہیں بیچ سڑک میں چلتے ہیں ۔ راستے کے درمیاں میں کھڑے ہو کر باتیں کرتے ہیں کسی کو ٹریفک قوانین کا نہیں پتہ ۔سٹی ٹریفک پولیس چینلز پر آگاہی کے اشتہار دے اور سخت سزائیں مقرر کرے پھر نتائج ملیں گے ۔یہ جو ہر وقت سورچ بپھرا رہتا ہے اور چاند زرد پڑا رہتا ہے یہ وہ نا حق خون ہے جو ان پر چڑھ کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ اس ملک کو لوٹنے والے تو بہت ہیں سنبھالنے بچانے والا کیا کوئی نہیں …؟؟