ضمنی انتخاب کا معرکہ
ضمنی انتخاب نئی کہانیاں سنا رہا ہے۔ حکمران کپتان سب سے مشکل میں ہیں۔ موروثی سیاست کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے راشد حفیظ کو چار و نچار ٹکٹ دینا پڑا بس یہ منو ا سکیں وہ قلم دوات کی بجائے بلے کے نشان پر حصہ لیں گے۔ تحریک انصاف کے اندر اختلافات کی ‘‘ٹلیاں’’ کھڑک رہی ہیں۔شاہد خاقان عباسی مری کی شکست اور اسلام آباد سے انتخابی شکست کے بعد اب قسمت آزمائی کے لئے لاہور پہنچ گئے ہیں اور پوٹھوہار کے انوکھا کردار چودھری نثار پنجاب اسمبلی کی نشست جیتنے کے باوجود ہنوز لا پتہ تھے۔ اب مرحومہ کلثوم نواز کے لندن جنازے میں نمودار ہوئے۔ انہوں نے ضمنی انتخاب میں کودنے کی بڑھک لگائی تھی لیکن منظر سے غائب ہیں۔
ایک ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد عمران خان حکومت کا پہلا عوامی انتخابی ’ٹیسٹ‘ آرہا ہے۔ ضمنی انتخاب کا معرکہ 14اکتوبر کو برپا ہوگا۔ قومی اسمبلی کی 11 اور 19صوبائی نشستوں پر جوڑ پڑنا ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر آمنے سامنے ہونگی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا سامنا رہے گا۔ گھوڑے اور سوار بدلے جارہے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 124میں جائے پناہ کی تلاش میں پہنچے ہیں۔ پی ٹی آئی ٹکٹوں کی تقسیم سے نقصان اٹھاسکتی ہے۔ بعض جگہوں پر’میرٹ‘ کا ’میرٹ‘ پر پورا نہ اترنا ایک طعنہ بن کر عمران خان کو سہنا پڑے گا اور ’اثرات بد‘ بہرحال بھگتنا پڑیں گے۔
دس ماہ ’’میرے وزیراعظم‘‘ کی فریاد کرتے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ وہ اپنے ’’قائد‘‘ کے ایماء پر یہاں سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی قومی اسمبلی میں موجودگی کا مقصد شہباز شریف کی ’’مدد‘‘ کرنا ہے۔ حمزہ شہباز اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ شہباز شریف نے حمزہ شہباز کے ذمے لگایا کہ وہ ’’ڈھیلا‘‘ نہ پڑے اور شاہد خاقان عباسی کو کامیاب کرائے۔
شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے شکست ہوئی۔ این اے 53 میں جواں سال علی نواز کو تحریک انصا ف کا ٹکٹ ملا ہے۔ متحرک، جذبہ تازہ لئے علی اعوان پچیس جولائی کے عام انتخابات میں بھی ہردم تیز دم کی مثال بنارہاتھا۔ این اے 53 میں اس کی زیادہ تر ٹیم نوجوانوں پر ہی مشتمل ہے۔ بلدیاتی انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر نئے ریکارڈ قائم کرنے والا ملک عامر علی بھی اس کا ہمرکاب ہے اور انہوں نے این اے 53 میں عمران خان کے لئے ہر پولنگ سٹیشن پر جنگی انداز میں کام کیا۔ یہ دونوں نوجوان اس حلقے میں شہری اور دیہی کا خوبصورت امتزاج بن کر ابھر رہے ہیں۔ کارکنوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ مسیحی برادری کا بڑا ووٹ ان دونوں ہی کی محنت سے کامیابی کانتیجہ بن کر نکلا تھا۔
عمران خان نیل علی اعوان کو ٹکٹ دے کر ثابت کردیا کہ وہ میرٹ پر فیصلے کررہے ہیں۔ ایک اور اہم امیدوار چوہدری الیاس مہربان تھے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ لئے لیکن اس مرتبہ قرعہ فال نوجوانوں کے حق میں نکلا ہے۔ چوہدری الیاس کے نام کے ساتھ مہربان ہے۔ وہ نوجوان علی اعوان پر مہربان ہوگئے ہیں کیونکہ اب تک ان کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج سامنے نہیں آئی جو پی ٹی آئی کے لئے اچھی بات ہے۔ شاہد خاقان عباسی اس نوجوان کا سامنا کرنے کی بھی ہمت نہ کرسکے جس سے خود ان کے دعویٰ ہائے دھاندلی کی ساکھ ’مجروح‘ ہوجاتی ہے۔ کل کے بچوں کو ہرانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہئیے۔
این اے 124وہ واحد قومی اسمبلی کی نشست ہے جو مسلم لیگ (ن) نے چھوڑی ہے۔پی ٹی آئی کے نعمان قیصر 70ہزارووٹوں سے یہاں ہارے تھے۔نعمان قیصر نے ضمنی انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ ایک ’سرپرائز‘ غلام محی الدین دیوان کے پی ٹی آئی امیدوار بننے کے دعوے کی صورت بھی سامنے آرہا ہے جو آزادجموں وکشمیر مجلس قانون ساز کے رکن ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 131 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے زبردست گروپ بندی اور لابنگ جاری رہی۔ پارٹی میں نئے آنے والے ہمایوں اختر خان نے ولید اقبال کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرلیا۔ اس حلقے میں مدمقابل خواجہ سعد رفیق ہیں۔ ہمایوں اختر خان پیسہ خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں عمران خان نے چھ سو ووٹوں سے خواجہ سعد پر برتری پائی تھی۔
این اے 56 بھی مشکل فیصلہ تھا۔ ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر اٹک سے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی میجر (ر) طاہرصادق اور عمران خان کے تعلقات کشیدہ ہونے کی خبریں آئی تھیں۔ این اے 56کا پارٹی ٹکٹ عمران خان میجر طاہر کے خاندان کو دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اپنے مشیر امین اسلم کو ہی اس حلقے سے الیکشن لڑانا چاہتے ہیں۔ دو حلقوں میں کامیابی کے بعد عمران خان نے میجر طاہر کو این اے 56 کی سیٹ اپنے پاس رکھنے اور 55 کی نشست چھوڑنے کا کہا تھا۔ تاہم انہوں نے عمران خان کی بات نہ مانتے ہوئے این اے 55 اپنے پاس رکھی جبکہ این اے 56 خالی چھوڑ دی۔سیاسی ماہرین کے مطابق حلقے میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کا مسلم لیگ ن کے ملک سہیل اور پاکستان تحریکِ لبیک کے سید فیصل کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔حکمران جماعت اس حلقے میں شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ ضمنی الیکشن کے لیے میجر طاہر کے صاحبزادے زین الہی اور داماد وسیم گلزار نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کیلئے درخواستیں دی تھیں۔ تحریک انصاف نے ملک خرم کو این اے 56 اٹک سے پارٹی ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ اب الیکشن میں اس فیصلے کا نتیجہ سامنے آئے گا۔
وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین کی ضمنی انتخاب کے لئے جاری کردہ فہرست کے مطابق منصور حیات خان این اے 63 راولپنڈی سے ، محمد عالمگیر خان این اے 243کراچی سے اور این اے 247کراچی سے آفتاب صدیقی کو پارٹی ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔ اس اعلان میں این اے 60 راولپنڈی، این اے 35 بنوں اور این اے 124 لاہور کے لئے امیدواروں کے ناموں کا اعلان شامل نہیں تھا۔ این اے 60کے لئے شیخ رشید احمد اپنے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے لئے ٹکٹ کے حصول میں کامیاب رہے اور اس نشست پر دراصل شیخ رشید ہی انتخاب میں اپنے سیاسی کرتب اور جوڑ توڑ دکھائیں گے ۔ بھتیجے کا تو محض نام ہے۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کے کارکناں اور حامیوں کو تکلیف ہے کہ کس بنیاد پر پارٹی نے شیخ رشید کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا اور پارٹی کارکنوں کو نظرانداز کردای۔
صوبائی اسمبلی کے لئے پارٹی ٹکٹ جن افراد کو جاری کیاگیا ان میں پی کے 3 سے ساجد علی، پی کے 7 سے فضل مولا، پی کے 97 سے فیصل امین خان، پی کے 78 سے محمد عرفان اور پی کے 99 سے آغا اکرام اللہ گنڈاپور میدان میں اتریں گے۔ صوبہ سندھ میں پی ایس 87 سے سردار قادر بخش کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے لئے پی پی 27 سے شاہنواز راجہ، پی پی 296 سے اویس دریشک اور پی پی 272 سے زہرہ بتول تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔