زنگ زدہ خارجہ پالیسی کا جائزہ
ہمیں اندرونی ا ور بیرونی مفادات پرستوں کی سنگ باریوں اور شرانگیزیوں کو خاطر میں لائے بغیر چین سے تعلقات میں اضافے کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ کا یہ اشارہ حوصلہ افزا ہے کہ اُنہوں نے سی پیک کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ا ور یہ کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔ ٹھیک ہے ہمیں اس بارے میں خوش گمانی سے کام لینا چاہئے، امریکہ اور چین کے درمیان عالمی اقتصادی غلبہ کیلئے مستقبل میں بھی سرد جنگ جاری رہ سکتی ہے۔ وہ جانیںاور اُن کاکام، ہمیں اس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں غیر جانبدار رہ کر دونوں ملکوں سیٰ تعلقات ا ور دوستی کا نمونہ بننا چاہئے۔ ماہرانہ سفارتکاری کو بروئے کار لا کرامریکہ کی غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلقات کی بنیاد، برابری اور باہمی عزت کے اصولوں پر ہونی چاہئے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان ا ور اُن کی پاکستان سے درخواست پرغور ہونا چاہئے، دونوں ملکوں کو مصالحت کا مشترکہ ماڈل تلاش کرنے اورافغانستان میں امن عمل پر مل کر کام کرنا چاہئے۔ سرحد کے دونوں طرف طالبان کو بھی اب سمجھ لینا چاہئے کہافغانستان اور پاکستان میں امن بندوق سے نہیں بات چیت اور سیاسی طورپر ہی لایا جا سکتا ہے، اُمید ہے کہ وہ (طالبان) ہوشمندی سے کام لیں گے اور اس ضمن میں پاکستان کو کردارادا کرنے دیں گے۔ پاکستان کو تنازع کے تمام فریقوں کو مل بٹھانے کی زیاد ہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح پاکستان کو پس پردہ رہ کر برادر اسلامی ملکوں، سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان دوستی پیدا کرنے کے لئے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بھارت کا پاکستان دشمن رویہ تو نہیں تبدیل ہو گا۔ وہ پاک ڈپلومیسی کوتباہ کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا، لیکن ہمیں اِدھراُدھر دیکھنے کی بجائے سبھی ملکوں کیساتھ خوشگوار باہمی تعلقات کے قیام پر توجہ مرکوز رکھنا چاہئے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ سیاسی تنہائی ہماری قسمت میں نہیں لکھ دی گئی، کہ جسے بدلا نہ جا سکے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر بامقصد اور ذہین سفارتکاری کے ذریعے اس صورتِحال سے نکلا جاسکتا ہے۔
پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہئے۔ اُنہوں نے وزارتی سطح پر باہمی رابطے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ا ور وزرائے دفاع کے درمیان ہوں گے جن کی مدد سے اعلیٰ سطحی تعلقات اور ان میں پیش رفت بارے روابط رکھے جائیں گے۔ کوئی بھی پالیسی بناتے وقت ہمیں امریکہ ، بھارت مذاکرات اور متعلقہ تمام عوامل کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ مذکورہ مشترکہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ا ور بھارت نے جنوبی ایشیا سے بھی آگے دفاعی تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ اُن کا یہ مشترکہ بیان گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ امریکہ نے ماضی کے برعکس، پاکستان میں حکومتیں بنانے اور توڑنے کا کردار ختم کردیا ہے۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے اور اس کا کریڈٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کوجاتا ہے کہ جنہوں نے اس امر کو یقینی بنایا۔ میں اس موضوع پر ضرور لکھوں گا کہ امریکہ کس طرح ہماری حکومتوں کی تشکیل میں مداخلت کرتا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو دفاعی قوتوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے اور ہمارے طاقت ور اداروں نے علانیہ اُن کے لئے حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب انتظار کرنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اتنی مؤثر اور بھرپور حمائت کی مدد سے عمران خاں طاقت ور مصلح بن کر اُبھرتے ہیں یا ماضی کی طرح کے وزرائے اعظم کی مانند روایتی قسم کے وزیر اعظم ہی بن کر رہ جاتے ہیں، یا پھر طاقت ور بیورو کریسی کی جانی پہچانی روش ’’یس منسٹر‘‘ کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ آئیے! اُمید رکھیں کہ نئی حکومت خارجہ پالیسی میں ایسی مئوثر اور نتیجہ خیز تبدیلیاں لائے گی جو پاکستان کو تنہائی سے نکلنے میں مدد دیں گی۔ (ختم شد) (ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)