ماں
بیگم کلثوم نواز عمر میںمجھ سے ایک سال چھوٹی تھیں لیکن ان کی شخصیت اور کردار کاکرشمہ ہے کہ میری نظروں میں ان کی عزت ماں کی سی ہے ۔ میری طرح کے لاکھوں لوگ بیگم کلثوم نواز کو’’ماں ‘‘ کا درجہ دیتے تھے اور یہ بات ان کے مرنے کے بعد ساری دنیا نے دیکھی کہ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لئے لاہور آئے۔ 12اکتوبر1999کے بعد میری جاتی عمرہ کے مکینوں میاں شریف مرحوم ، بیگم کلثوم نواز مرحومہ ، کیپٹن صفدر، مریم نواز سے ملاقاتیں شریف فیملی کے دیرینہ دوست فیاض بٹ مرحوم قالینوں والے کے ہمراہ ہوئیں۔ بٹ صاحب مرحوم میرے والد محترم کے دوست تھے اور میں بچپن سے انہیں ’’چاچا جی ‘‘ کہا کرتا تھا لیکن مشرف کے نواز شریف کے اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد میں ان کے ہمراہ ’’شریفوں ‘‘ کے یہاں جانے لگا اور انہیں اب ’’چاچا جی ‘‘ کی بجائے ’’پا جی ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ بیگم کلثوم نواز کا چاغی کا سفر تھا یا پشاور کادورہ یا کوئی اور سیاسی سفر ہر موقع پر میں میں ایچ 180سے انہیں رخصت کرنے کی رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔ ان دنوں میں نیوز ایجنسی آن لائن اور روزنامہ امت کراچی کا بیک وقت لاہور میں بیوروچیف تھا۔ بیگم کلثوم نواز کی متانت ، وضعداری اور سمجھداری کے کئی واقعات ہیں۔ ہماری رائے اپنی جگہ شہید بے نظیر بھٹو ، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان اور اس دور کے چوٹی کے دیگر سیاستدان بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد کو قابل تحسین قرار دیتے تھے ۔ مشرف آمریت کا زمانہ تھا مسلم لیگ ن کی کوکھ سے مسلم لیگ ق کو جنم دینے کی کوششیں جاری تھیں ۔ بیگم کلثوم نواز جہاں آمریت کے خلاف سیاسی جنگ لڑ رہی تھیں وہاں اپنے شوہر کی جماعت مسلم لیگ ن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے بھی جدوجہد کر رہی تھیں ۔ انہیں راجہ ظفرالحق جیسے جہاندیدہ اور مخدوم جاوید ہاشمی، بیگم تہمینہ دولتانہ ، خواجہ سعد رفیق جیسے بہادروں اور سیاست کے گرم چشیدہ لوگوں کا ساتھ حاصل تھا۔ کیپٹن صفدر کا کردار داماد کی بجائے بیٹے کا سا تھا ۔سیاست میں کیپٹن صفدر کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کا وہ مستحق تھا۔ اس کی مشرف آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد بھی بڑے لیڈر سے کم نہیں۔
سعودی عرب جلاوطنی کے بعد بیگم کلثوم نواز دوبارہ گھریلو زندگی کی طرف لوٹ گئیں ۔ وہ ایسا نہ کرتیں تو یقینا مسلم لیگ ن کی نواز شریف کے بعد دوسری بڑی رہنما ہوتیں۔ ان کے گھر بیٹھ جانے سے مسلم لیگ ن کا خاصا نقصان ہوا اور ملک ایک مایہ ناز سیاستدان سے محروم ہوگیا۔ میاںنوازشریف کی عدالت کے ہاتھوں نااہلی کے بعد ان کو ایک مرتبہ پھر پکارا گیا اور وہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔کلثوم نواز کی ظالم بیماری کی تشخیص اور لندن میں علاج نے طوالت پکڑی۔ میاں نواز شریف اور ان کی بہادر بیٹی مریم نواز ان کی عیادت کے لئے آتے جاتے رہے لیکن ستم زمانہ کے باعث تیمار داری کے فرائض ادا نہ کر سکے ۔ باپ بیٹی کلثوم نواز کو جس حالت میں چھوڑ کر واپس آنا پڑا ان لمحات کو یاد کرکے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پاکستان آنے پر باپ بیٹی کو حوالہ زنداں کر دیا گیا ۔
بیگم کلثوم نواز کی رحلت کی خبر پر ملک کے دیگر لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح راقم الحروف بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔آنسوئوں کی ایسی جھڑی لگی کہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ وقت نیوز پر بیگم کلثوم نواز کی یادمیں ہونے والے پروگراموں میں شرکت کر سکتا۔نواز شریف اور مریم نواز کی پیرول پر رہائی کی اطلاع ملی۔ صبح سویرے باپ بیٹی لاہور پہنچے اور جب میں جاتی عمرہ جا رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ میاں نواز شریف سے کس طرح افسوس کروں گا۔ آنسو تھمتے نہیں تھے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب نواز شریف تعزیت کرنے والوں کے پاس پنڈال میں آئے تو میں ان کی کرسی جہاں وہ تشریف فرما ہوئے ، میںان سے چند افراد کے فاصلے پر تھا ان کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن تھے ۔ پھر سابق سپیکر اسمبلی رانا محمد اقبال خان ، منشا اللہ بٹ میاں جاوید لطیف اور میں ، ساتھ ملک ندیم کامران اور رانا ارشد تھے۔ سامنے میاں غلام حسین شاہد ، حاجی حنیف اور حافظ محمود الحسن تھے ۔ میاں صاحب کے آتے ہی سوگواروں کا ہجوم ان سے ملنے کے لئے ٹوٹ پڑا ۔ صوفے پر بیٹھے رانا محمد اقبال خاں، منشاء اللہ بٹ، میاں جاوید لطیف اور میں دھکم پیل کرنے والوں کی زدمیں تھے۔ میں نے میاں نوازشریف کی ایک جھلک دیکھی جب وہ اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے۔ نوازشریف کے خلاف چیف سکیورٹی افسر عبدالشکور نے اپنی ٹیم کے ہمراہ حالات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے حتیٰ کہ خود ان کے پائوں اکھڑ گئے قبل اس کے کہ وہ ہم پر آن گریںہم نے دونوں ہاتھوں سے انہیں روکنے کے لیے پوری طاقت لگادی۔ عین اس لمحے سردار مہتاب خان ریلے میں آ گئے۔ ان کو بچانے کے لئے صوفے سے اٹھنا چاہا لیکن وہ میری گود میں گر چکے تھے۔انہیں سنبھالا۔ ملک ندیم کامران نے پیچھے کی طرف نکلنے کا راستہ پایا اور نکل گئے۔ رانا ارشد نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے صوفے سے اٹھنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر کے مطابق میری کمر کا ’’ماس پھٹ گیا ہے اور گردن میں بل پڑ گیا ہے۔ میاں نوازشریف سے ملاقات ہو سکی نہ ہی آنکھیں چار ہوئیں، یہی حال ملک بھر سے آنے والے بیگم کلثوم نواز مرحومہ کے دیگر بھائیوں اور بیٹوں کا ہے کہ وہ نوازشریف یا فیملی کے کسی فرد سے تو مل کر افسوس نہیں کر سکے۔ البتہ وہ خود کو سوگوار خاندان کا حصہ ہی سمجھتے رہے۔
اللہ بیگم کلثوم نواز کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میںجگہ دے۔ آمین۔