بلی اور وزیر!
کرشن چندر ایشیا کے عظیم ادیب تھے۔ اپنی تحریروں سے انہوں نے قارئین کو بہت متاثر کیا۔ گو آخری عمر میں مسلمان ہو گئے تھے لیکن ہم ابھی تک تعصب کی عینک سے ہی ان کی شخصیت کاجائزہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل پوری طرح ان کے فن اور شخصیت سے آگاہ نہیں ہے…خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رومانیت کے علاوہ بھی ان کا قلم سماجی برائیوں، حکومتی بوالعجبیوں اور بدحواسیوں کا جائزہ لیتا رہا۔ تنقید کو طنز و مزاح کے بارے میں پیش کرنا کوئی ان سے سیکھتا انگریزی زبان کا محاورہ ہے۔ PENNY WISE POUND FOOLISH (اشرفیاں لٹیں کوہلوں پر مہر) ان کا مضمون ’’بلی اور وزیر‘‘ اس کا عکاس ہے۔
’’پنڈت اپا دھیا ئے جی‘ خاندانی وید حکیم تھے۔ اپنی محدود دنیا میں آرام اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک انقلاب آ گیا۔ ابھی ورطہِ حیرت سے باہر نکل بھی نہ پائے تھے کہ زمین سے آسمان تک پہنچ گئے۔ دراصل ہوا یوں کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کو بواسیر ہو گئی۔ انگریزی علاج سے تنگ آ کر اس نے اپنے بھتیجے کی سفارش پر پنڈت جی سے علاج کرایا اور کچھ دنوں میں مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔ خوش ہو کر اس نے انہیں خاندانی حکیم مقرر کر دیا…ایک دن وہ خمیرہ گائوزبان تیار کر رہے تھے کہ وزیراعلیٰ کا بلاوا آ گیا۔ جب ملاقات ہوئی تو وزیر اعلیٰ بغیر کسی تمہید کے بولا…’’پنڈت جی! یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ الیکشن سر پر آگیا ہے۔ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آدمیوں کو اوپر لایا جائے آپ تو اب اس خاندان کے فرد کی حیثیت سے اختیار کرچکے ہیں ۔لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپ الیکشن لڑیں گے ‘‘ حیرت سے پنڈت جی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ دست بستہ بولے؟ مہاراج ! میں سیاست کی ابجد سے بھی نا آشنا ہوں ۔ ان کٹھنائیوں میں کیسے چل پائوں گا؟ وزیراعلیٰ ہنس کر بولا۔ جسے آپ نا اہلیت سمجھ رہے ہیں یہی تو سب سے بڑی کوالیفیکیشن ہے ۔ چالاک لوگ آگے چل کر مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں ۔ اسی لئے میری کوشش ہے کہ خاندان کا ہر فرد اور بھروسے کے لوگوں کو آگے لایا جائے طوعاً کرہاً پنڈت جی نے نامزدگی فارم پر دستخط کر دئیے۔
پنڈت جی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں بتایا گیا کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے ہیں ۔ کچھ دنوں بعد پھر ان کی طلبی ہوئی ۔ وزیراعلی بولا اب کابینہ کی تشکیل ہو رہی ہے اور مجھے اپنے آدمیوں کی ضرورت ہے لہذا آپ کو وزیرصحت بنایا جا رہاہے پہلی مرتبہ تو پنڈت جی صرف کانپے تھے اب باقاعدہ لرزنے لگے ۔ اتنی بڑی وزارت کا چارچ سنبھالنا ان کے بس کا روگنہ تھا مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرا دیا گیا کہ سب کام سیکرٹری کریگا انہیں صرف ‘‘ گھوگھی‘‘ پھیرنا ہوگی۔
کچھ عرصہ آرام سے گزرگیا ایک دن پھر طلبی ہوگئی اپنے تمام تر وسوسوں کے ساتھ وہ ملاقات کے لئے چلے گئے وزیراعلیٰ کچھ مشوش نظر آتا تھا ۔ بولا اپوزیشن حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر بہت تنقید کر رہی ہے، پریس بھی اس کا ہمنوا بن گیا ہے، لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ محکموں میں کانٹ چھانٹ کی جائے اور اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے ۔پنڈت جی بولے ’’مہاراج میرا وجود یقینا خزانے پر بوجھ ہے مجھے فارغ کر دیں۔ کمال کرتے ہیں آپ بھی۔ وزیراعلیٰ نے خشمگیں نظروں سے انہیں دیکھا۔ کبھی کوئی اپنے آدمیوں کو بھی فارغ کرتا ہے ! میرا ایک سیکرٹری ہے دو ایڈیشنل سیکرٹری ۔ انہیں چلتا کریں ! تو پھر محکمہ کون چلائے گا؟ آپ تو دن بھر لنگری میں جڑی بوٹیاں گھوٹتے رہتے ہیں ! تو پھر ؟ آپ اپنے علاقے کا دورہ کریں ۔ اخراجات میں کمی کریں اور فالتو اسٹاف کو فارغ کردیں۔
پنڈت جی نے اپنے دورے کا آغاز ترائی کے جنگلات سے کیا۔ایک پنتھ دو کاج محکمانہ تراش خراش اور نایاب جنگلی بوٹیوں کی تلاش چیف کنزرویٹر فارسٹ ٹھاکر بلدیو سنگھ نے ان کا شایان شان استقبال کیا ۔ اسٹور میں رکھی ہوئی بوسیدہ ریڈ کارپٹ بچھائی گئی دو کمسن بچوں نے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ گلدستے میں پھول کم اور نایاب جڑی بوٹیاں زیادہ تھیں ۔ بھوجن کے لئے شہر سے عمدہ باورچی منگوائے گئے دوسرے دن دورے کا آغاز ہوا۔ گھنا جنگل، خطرناک جانوروں اور حشرات الارض سے اٹا ہوا۔ شام کو لوٹے تو پنڈت جی کا تھیلا جڑی بوٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔اور ٹھاکر کے فزاک میں دو چیتے نکلے۔
غرض و غائت صبح کو میٹنگ ہوئی۔ پہلے پنڈت جی نے حیرت کا اظہار کیا۔بولے ، ٹھاکر صاحب اس خطرناک جنگل میں آپ گھوڑے پر سفر کیسے کر لیتے ہیں ؟ بولا ، تقسیم سے قبل چیف کنزرویٹر کے لئے ایک ہاتھی مختص تھا۔ اب اس کی اجازت نہیں ہے حالانکہ قریبی ریاست سے ایک ہاتھی نہایت سستے داموں بک رہا ہے۔ پنڈت جی نے Seeing is Beleiving(عیاں راچہ بیاں) کے مصداق فوراً منظوری دے دی۔ اس کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ کے احکامات برائے بچت! جو نظر بھی آئے ! ٹھاکر بولا ۔ ایک تو میں ہوں مجھے فارغ کر دیں ! تو پھر محکمہ کیسے چلے گا؟ پنڈت جی اسے قریباً ڈانٹتے ہوئے بولے۔ میرے نیچے دو ایڈیشنل کنزرویٹر ہیں اور نیچے ان کے ماتحت چار ڈپٹی سیکرٹری ہیں اور نیچے آٹھ سیکشن آفیسر ہیں ، سولہ اسسٹنٹ ہیں ، بیس کلرک ہیں اور نیچے ایک بلی ہے جس کے دودھ پر ماہانہ ساٹھ روپے خرچ اٹھتا ہے۔بلی کیوں بھرتی کی ہے؟ پنڈت جی حیران ہوئے ۔بولا جنگلی چوہے ریکارڈ تلف کر دیتے ہیںاس کی نگرانی کے لئے بلی پال رکھی ہے ۔ یہ سننا تھا کہ وزیر موصوف کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثارمترشح ہوئے ۔وجود بید مجنوں کی شاخ کی طرح لرزنے لگا بولے، ٹھاکر صاحب ! اتنے میں میائوں کی آواز آئی۔ بلی حیرت سے وزیر کو تک رہی تھی۔‘‘ یہ بھولا بسرا واقعہ ہمیں اس لئے یاد آیا ہے کہ ہماری نئی حکومت نے بھی بچت کے سلسلے میں اسی قسم کے حکیمانہ اقدامات کئے ہیں ۔
وزیراعظم صاحب نے اعلان فرمایا ہے کہ بچت‘ سادگی اور کفایت شعاری ان کی حکومت کی پالیسی کا ’’کارنر اسٹون‘‘ ہے۔ ابتداً انہوں نے اپنے آپ سے کی ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے خان صاحب نے اسی احاطے میں ملٹری سیکرٹری کے چار کنال کے مکان میں رہنا پسند فرمایا ہے۔ (جاری)