منگل ‘ 7؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 18؍ ستمبر 2018ء
صدر ٹرمپ کو ’’پاگل کتا‘‘ کہنے پر امریکی وزیر دفاع کو برطرف کیے جانے کا امکان
امریکی وزیر دفاع نے یہ کیا کر دیا یہ کیا کہہ دیا۔ اس پر تو …؎
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بڑا نا سمجھ ہوں سزا چاہتا ہوں
کے مصداق انہیں کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے ۔ مگر لگتا ہے امریکی صدر کو کوئی جو چاہے کہہ دے وہ جس راہ پر چلتے ہیں اسے درست سمجھتے ہیں ۔ کوئی ان کو ان کی راہ سے ہٹا نہیں سکتا۔ ایسے لوگ ہی بڑے بڑے فیصلے کرتے ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے ۔ روس کے صدر گوربا چوف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کے ہاں میڈیا آزاد نہیں تھا اس لئے وہاں کے عوام یا وزرا ان کے بارے میں جوکچھ کہتے تھے وہ دنیا تک نہیں پہنچتا تھا۔ اب میڈیا آزاد ہے۔ امریکی صدر کے بارے میں خود امریکی میڈیا میں جوکچھ کہا جا رہا ہے سنا جا رہا ہے ہم جیسے خوف کے مارے لوگ تو اسے زبان پر بھی نہیں لا سکتے ۔ہمارے ایک صدر نے بے شک وہ زبردست آمر تھے مگر ایسا جملہ سن کر استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھی۔اس کے بعد یہ لفظ پاکستان کی سیاست میں نعرے بازی میں ضرب المثل بن گیا اور آج تک اس کا استعمال عام ہے ۔ اب معلوم نہیں امریکی معاشرے میں اسے کیسا سمجھا جاتا ہے ۔ وہاں تو ویسے بھی جانوروں کی بڑی قدر ہے ۔ خاص طور پر کتے کو بھی سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے ۔ اس کی وفاداری ہمارے ہاں بھی ضرب المثل ہے مگر اس کے باوجود کسی کو اس سے تشبیہ دی جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے آگ بگولہ ہو جاتا ہے ۔ صدر ٹرمپ تو ویسے ہی دیکھنے میں آگ بگولہ لگتے ہیں ۔ ہر وقت غصہ ان کی ناک پر دھرا رہتا ہے جوعام طور پر پاکستان پر گرتا ہے۔
٭…٭…٭
لاہور گورنر ہائوس عوام کیلئے کھول دیا گیا
عہد رفتہ تمام ہوا، بادشاہوں کے جاہ جلال کے قصے خواب و خیال ہوئے۔ ظل الہٰی کہلانے والے خود تو خاک نشین ہو گئے مگر ان کے قائم کردہ محلات، بارہ دریاں اور مقبرے آج بھی موجودہ حکمرانوں کے سطوت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی عمارات میں لاہور کا گورنر ہاؤس بھی شامل ہے جو کم از کم 400 برس پرانا ہے۔ اس کی مرکزی تعمیر وہ نمائشی مقبرہ ہے جو شہنشاہ اکبر یعنی مغل اعظم نے تعمیر کیا تھا۔ پھر اس کے اردگرد یہ عظیم الشان عمارت آہستہ آہستہ قائم ہوئی۔ باقی صوبوں کے گورنر ہاؤس بھی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں مگر وہ سب انگریزی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تعمیر ہمارے یعنی برصغیر کے غیر ملکی آقاؤں کے دور میں ہوئی۔ اب موجودہ حکومت نے گورنر ہاؤسز کے دروازے عوام کے لئے کھول دئیے ہیں تو وہاں جانے والے عوام کو پتہ چلا ہے کہ ان کے صوبے کا سب سے بڑا صاحب اتنے بڑے اور خوبصورت پر آسائش محل میں جو کسی پرستان کے محل سے کم نہیں تنہا اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا تھا۔ لاہور کے گورنر ہاؤس کو البتہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے ایک عوامی گورنر میاں اظہر نے اسے سب سے پہلے عوام کے لئے کھولا تھا۔ جب تک وہ گورنر رہے عوام کے لئے اس کے دروازے کھلے رہے۔ اب چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤس کے دروازے کھلے ہیں۔ لاہور کی اس شاہی عمارت میں تو سارا دن لوگوں کا ہجوم رہا جو سیلفیاں بناتے فٹبال اور کرکٹ کھیلتے سیر کرتے ہوئے حیرانگی سے ایک غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہی رہائشگاہ کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی نظروں سے دیکھتے رہے اور وہاں سیلفیاں بناتے رہے۔
٭…٭…٭
درہ آدم خیل میں اسلحہ تیار کرنے کے کاروبار کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ
خیبر پی کے کے اس علاقہ میںاسلحہ سازی کا کام کم و بیش ڈیڑھ سو سال سے ہو رہا ہے ۔ 9ہزار سے زیادہ لوگوں کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے ۔ صرف یہی نہیں اس کے علاوہ اسلحہ سمگلنگ میںملوث سمگلر ٹرانسپورٹر وغیرہ ہزاروں افراد کا دھندا بھی یہاں کے کاروبار کی بدولت پھل پھول رہا ہے ۔ اب اگر حکومت اس کاروبار کو قانونی حیثیت دے تو اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور قومی خزانے کو بھی بھر سکتی ہے جس سے ملک کا فائدہ ہوگا۔ مگر اس کا مطلب ہمارے مہربان یہ نہ لے لیں کہ اب وہ قانونی طور پر درہ آدم خیل کا اسلحہ لے کر جہاں چاہیں جا سکتے ہیں ۔دھیان رہے ملک بھر میں اسلحہ کی نمائش اور ساتھ لے کر چلنے پر پابندی ہے ۔ سمگلرحضرات البتہ اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں جبھی تو ملک بھر میں علاقہ غیر سے بننے والے دیسی اسلحہ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اسلحہ کی بھی بھرمار ہے ۔ یہ لاقانونیت جو کراچی سے لے کر خیبر تک پنجے گاڑے ہوئی ہے اسی ناجائز اسلحہ کی بدولت ہے۔ اب دیکھتے ہیں اب حکومت علاقہ غیر کے اسلحہ کے حوالے سے کیا قانون سازی کرتی ہے ۔ کیونکہ یہ ایک اہم فیصلہ ہے جس سے اسلحہ سازی کی صنعت میں ترقی ہوگی مگر اس کے ساتھ کہیں جرائم کی صنعت میں بھی ترقی نہ ہو جائے۔
٭…٭…٭
ولید اقبال ایک بار پھر تحریک انصاف کے ٹکٹ سے محروم
وفاداری اگر بشرط استواری ہے تو پھر غالب کو لا کر کوئی ہماری سیاست کا یہ منظر ضرور دکھائے کہ یہاں ان کا سارا فلسفہ اوندھے منہ پڑا نظر آئے گا۔ ولید اقبال تحریک انصاف کا وہ روشن چہرہ ہے جس سے پڑھے لکھے اور اعلیٰ سوسائٹی والے خاصے مرعوب ہوتے ہیں۔ یہ اعلیٰ کلاس اور دانشور طبقہ کے محبوب ہیں ۔ تحریک انصاف کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ انہوں نے اس وقت بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑاجب دنیا جانتی تھی کہ ووٹ پڑنے نہیں تو بے کار مشق کا فائدہ کیا۔ ہار جیت سے بے نیاز ہو کر انہوں نے بھاری بھرکم بڑے بڑے سیاستدانوں کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ یہ تو چلیں خزاں کا دور تھا اب تو بہار چھائی ہے پھر پت جڑ کا خوف کیوں ۔ سعد رفیق کے مقابلے کے لئے مالی طور پر تگڑی آسامی والے کی ضرورت برحق مگر گورنر چودھری سرور کی چھوڑی سینٹ کی سیٹ پر اگر انہیں لڑایا جاتا تو کیا ہرج تھا۔ مگر ایساشریف انسان شاید اب تحریک انصاف کی الیکشن ٹیم میں فٹ نہیں بیٹھتاکیونکہ یہ شاید الیکٹ ایبلز کی صف میں شامل نہیں ۔ اس لئے پہلے انہیں ایم این اے پھر سینٹ کا ٹکٹ کہہ کر بھی نہیں دیا گیا البتہ اب انہیں مشیر بنانے کا دلاسہ دیا جا رہا ہے ۔ دیکھتے ہیں اب کیا گزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔