بھارت افغانستان کیلئے راہداری مسئلہ کشمیر سے مشروط ہے
ایک سینئر امریکی سفارتکار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کا جلد افغانستان سے رابطہ کرنا اس خواہش کا اظہار ہے کہ وہ زمینی راستے کے ذریعے افغانستان اور بھارت کے درمیان دوبارہ تجارت بحال کرنے کا خواہاں ہے۔ امریکی سفیر جوہن باس نے بھارتی نشریاتی ادارے ’’اکنامک ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی اور وسطی ایشیاء کے درمیان زمینی راستہ دوبارہ کھلنے سے خطے کے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ایسی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ آمادگی ظاہر کی ہے۔
افغانستان اور بھارت کا پاکستان سے باہمی تجارت کیلئے راہداری دینے کا دیرینہ مطالبہ ہے، پاکستان کی کسی حکومت نے نائن الیون سے قبل اور اسکے بعد بھی اس مطالبے پر غور نہیں۔ امریکہ کا اس حوالے سے پاکستان پر ہمیشہ دبائو رہا اب تو بھارت کو افغانستان میں بہت بڑا کردار دینے کے اعلانات کے بعد اس دبائو میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کو دئیے گئے کردار کو قبول کرنے پر بھی زور دے رہا ہے۔ یہ مطالبہ اب ڈور کے تقاضوں کا حصہ بن گیا ہے۔ بھارت کو راہداری دی جا سکتی ہے اور اس کا افغانستان میں کردار بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نیک نیتی کا مظاہرہ کرے۔ اس کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے جو دونوں ممالک کے مابین بنیادی مسئلہ اور بہت بڑی دشمنی کا سبب ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ دو روز قبل وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ افغانستان اسی سلسلے کی کڑی ہے اس سے پاکستان اور افغانستان کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے امریکہ نے کیسے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ بھارت اور افغانستان کو پاکستان راہداری دینے پر آمادہ ہے۔ یہ امریکہ کا خود ساختہ بیان ہے جس کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنا ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے ایسے ہی رویوں سے اسکی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوٹیرس نے شاید امریکہ کے ایسے رویوں کے تناظر میں ہی کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنا دبدبہ اور قائدانہ کردارکھو چکی ہے۔