پاکستان اور چین میں غلط فہمیاں پیدا کرنیکی کوئی امریکی بھارتی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی
آرمی چیف کا تین روزہ دورۂ چین۔ سی پیک کی حفاظت کی ضمانت
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ چین کے تین روزہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچ گئے ہیں وہ چین کی اعلیٰ قیادت کو پھر یقین دہانی کرانے بیجنگ آئے ہیں کہ سی پیک پاکستان کا معاشی مستقبل ہے اور اس منصوبے کی سکیورٹی پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کی اپنے ہم منصب چینی آرمی چیف اور چین کی سیاسی قیادتوں سے اہم ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملاقاتوں میں سی پیک اور دہشت گردی کیخلاف جنگ سمیت اہم امور زیرغور آرہے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ دورہ عالمی میڈیا کی ان رپورٹوں کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان سی پیک منصوبہ پر نظرثانی کررہا ہے۔ ان رپورٹس کو نہ صرف پاکستان بلکہ چین میں بھی بے چینی سے دیکھا گیا اور فوری طور پر پاکستان میں چینی سفیر کو اس مسئلہ پر پاکستانی قیادت سے بات کرنے کا کہا گیا۔ چینی سفیر نے اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرکے سی پیک کی سکیورٹی اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور سی پیک پر پاکستانی قیادت کی حمایت کی ستائش کی۔ دوران ملاقات آرمی چیف نے سی پیک کو پاکستان کا معاشی مستقبل قرار دیا اور کہا کہ اسکی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔
خارجہ اور دفاعی امور کے ماہر تجزیہ کار آرمی چیف کے دورۂ چین کو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں کہ اس دورے میں چینی قیادت کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر بات چیت ہوگی۔ انکے بقول یہ میڈیا رپورٹس مغربی ذرائع ابلاغ اور بھارت‘ امریکہ لابی کی سازش ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ نئی پاکستانی حکومت اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ انکی رائے میں یہ معاملہ سی پیک کی امریکی مخالفت اور اسکی بھارت نوازی کا شاخسانہ ہے اس لئے حالیہ صورتحال میں پاکستان کے آرمی چیف چینی قیادت کو اعتماد میں لیں گے۔ بعض تجزیہ نگاروںکا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کو چھپانے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ دہشت گردی کیخلاف مزید کارروائی کیلئے دبائو بڑھانا چاہتی ہے اس لئے وہ سی پیک کومتنازعہ بنا رہی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ روز یہ واویلا بھی کیا تھا کہ سی پیک گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقے سے گزرے گا جس پر بھارت کو تحفظات ہیں۔ چین نے ان بیانات اور خدشات کو مسترد کر دیا تھا۔
بھارت کو چونکہ پاکستان کا استحکام‘ ترقی اور خوشحالی شروع دن سے ہی قبول نہیں اور اس نے قیام پاکستان کے وقت ہی اسے کمزور و بے بس کرنے کی سازشی منصوبہ بندی کرلی تھی جس کی بنیاد پر اس نے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ بنایا اور اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا۔ چنانچہ بھارت سے کبھی پاکستان کیلئے کلمۂ خیر یا اسکے استحکام کیلئے خطہ کے کسی ملک کا اسکے ساتھ تعاون قبول کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بھارت نے اسی تناظر میں اس امریکی سامراج کے ساتھ بھی دوستی کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی جس کیخلاف وہ سوویت یونین کی گود میں بیٹھ کر سامراج مردہ باد کے نعرے لگوایا کرتا تھا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس خطہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے پیش نظر امریکہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے درپیش ہوا جس نے بھارت کے ساتھ اپنی ماضی کی شکر رنجیاں بھلا کر چین کا علاقائی اثرورسوخ کم کرنے کی خاطر بھارت کو خطے کی تھانیداری کیلئے ہلہ شیری دینا شروع کردی نتیجتاً پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور اس نے امریکی آشیرباد کے تحت آپے سے باہر ہو کر پاکستان کے مخلص و بے لوث دوست چین کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ اس طرح امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے۔ امریکہ کو چین کا اثر و رسوخ توڑنے کیلئے بھارت کی ضرورت تھی اور بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے امریکہ کی کمک حاصل کرنے کی مجبوری لاحق ہوگئی اس طرح اس خطہ میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی بنیاد پڑی جو اب مسلم دنیا کو کمزور کرنے کے سازشی منصوبہ کو پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے بھی بروئے کار لایا جارہا ہے۔
اسی عرصہ میں چین کیلئے پاکستان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ وہ عالمی منڈیوں تک رسائی کیلئے راہداری کی تلاش میں تھا اور اس راہداری کیلئے بلوچستان کی گوادر پورٹ رابطے کا بہترین ذریعہ بن سکتی تھی۔ چنانچہ دونوں ممالک عالمی منڈیوں کے ساتھ روابط استوار کرنے کیلئے گوادر پورٹ کو اپریشنل کرنے پر متفق ہوگئے اور اسی تناظر میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ طے پایا جس میں پاکستان کا بھی اس حوالے سے مفاد وابستہ ہوا کہ اسکے ذریعے وہ اقتصادی استحکام سے ہمکنار ہو کر اپنا دفاع بھی مضبوط بنا سکتا تھا اور اپنے عوام کی خوشحالی کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر کر سکتا تھا۔ اس طرح سی پیک کی بنیاد پر پاکستان اور چین کی شہد سے میٹھی‘ سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی اور بھی مستحکم ہوگئی۔ یہ صورتحال امریکہ اور بھارت دونوں کو قابل قبول نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ سی پیک کے باعث امریکہ کے چین کا بڑھتا ہوا علاقائی اور عالمی اثرورسوخ توڑنے اور بھارت کے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے خواب بکھرتے نظر آرہے تھے۔
یہی وہ صورتحال ہے جس نے امریکہ اور بھارت کو سی پیک کیخلاف متحد کیا اور وہ اسے حیلے بہانے سے سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مگن ہوگئے۔ بھارت نے تو باقاعدہ دہشت گردی کے ذریعے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کیلئے اس نے اپنے دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا اور اسکے ماتحت بلوچستان ہی نہیں‘ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی طرح بھارت نے امریکہ کو یہ پٹی بھی پڑھا دی کہ وہ سی پیک کے گلگت بلتستان سے گزرنے کے ناطے اسے متنازعہ ٹھہرا کر اسے سبوتاژ کر سکتا ہے۔ چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے سی پیک کو کلبھوشن کے جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازش کی ناکامی کے بعد اس پر اسکے متنازعہ علاقہ سے گزرنے کے ناطے تحفظات کا اظہار شروع کر دیا اور اس پر چین کی جانب سے ہونیوالی سرمایہ کاری پر بھی اس تناظر میں اعتراضات اٹھانا شروع کر دیئے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ سی پیک میں استعمال ہونیوالی چین کی رقم اسے واپس لوٹانے کیلئے بروئے کار لائے گا۔
امریکہ اور بھارت کی پیدا کردہ اس صورتحال نے چین اور پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ایک دوسرے کے مزید قریب کردیا چنانچہ دفاعی نکتہ نظر سے چین نے سی پیک کے حوالے سے حکومت پاکستان کے علاوہ افواج پاکستان سے بھی معاہدہ کرلیا جس کے تحت پاکستان کی بری فوج نے سی پیک کیلئے ایک علیحدہ سکیورٹی نظام بنایا جو بہت شاندار انداز میں ایک میجر جنرل کی قیادت میں چل رہا ہے۔ بھارت چونکہ سی پیک کو دہشت گردی کے ذریے سبوتاژ کرنے کیلئے بعض دہشت گرد اور انتہاء پسند تنظیموں کو بھی استعمال کررہا تھا جن کے ذریعے سی پیک پر کام کرنیوالے چینی عملے پر حملوں کی منصوبہ بندی کے اشارے ملے تھے اس لئے پاک فوج نے خود سی پیک کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی کیونکہ اسی عرصہ میں تربت میں 20 مزدوروں کو قتل کیا جاچکا تھا جو سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ہی ایک سازش تھی۔ اس تناظر میں پاک فوج نے چین کے ساتھ معاہدے کے تحت سی پیک پر کام کرنیوالے چینی باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کی جبکہ سی پیک کے تحت بعض سڑکیں بھی پاک فوج کے شعبہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ذریعے ہی تعمیر کرائی جارہی ہیں۔ چنانچہ سی پیک کے ساتھ پاکستان کے مفادات حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی کاوشوں سے ہی وابستہ ہوئے ہیں اور چین کو بھی اس امر کا پختہ یقین ہے کہ افواج پاکستان کے فراہم کردہ تحفظ کے باعث سی پیک کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔
امریکہ اور بھارت کو یقیناً یہ صورتحال بھی گوارا نہیں ہوئی چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کیلئے مغربی میڈیا کے ذریعے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ پاکستان کی نئی حکومت چین کے ساتھ سی پیک کے منصوبہ پر نظرثانی کا سوچ رہی ہے۔ اس درفنطنی کا مقصد ایک تو پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ افواج پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا تھا اور دوسرا مقصد پاکستان اور چین کے مابین بگاڑ پیدا کرکے سی پیک کو اپریشنل ہونے سے روکنے کا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے سی پیک کے حوالے سے باہمی ربط و ضبط کی بنیاد پر امریکہ اور بھارت کی ان سازشوں کا فوراً ادراک کرلیا اور کسی قسم کی باہمی شکررنجی پیدا نہیں ہونے دی۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ بیجنگ سے امریکہ اور بھارت کی پیدا کی گئی غلط فہمیوں کا مزید ازالہ ہو جائیگا۔ سی پیک چونکہ دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سنگ میل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اس لئے وہ اس عظیم منصوبہ کیخلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ اب برادر سعودی عرب کی اس منصوبہ میں شمولیت سے اسکے خطے کیلئے مثبت اثرات مزید وسیع ہوگئے ہیں چنانچہ اس منصوبے کیخلاف کسی بھی سازش پر امریکہ اور بھارت کو منہ کی کھانا پڑیگی۔