تاریخ ایک ہی جیسے واقعات ردو بدل کے ساتھ دہراتی رہتی ہے۔ عقل مند ہیں جو ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔ ضد اور انا کے ہاتھوں مصلوب نہ ہوں۔ لیکن تاریخ کا یہ واقعہ پورے دو سو دس برس پرانا یعنی تیرہ جولائی 1804کا ہے الیگز ینڈر ہملٹن امریکا کا پہلا وزیر خزانہ اور امریکا کے صدر جارج واشنگٹن کا معتمد ساتھی تھا۔ اس نے ایک ماہر معیشت سیاسی مد بر اور قانون دان کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ امریکا کے مشہور بنک ” بنک آف نیو یارک“ کی بنیاد بھی اسی نے رکھی۔ اس نے غربت میں آنکھ کھولی لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تاریخ میں بہت بڑے مقام پر جا پہنچا۔ دولت عزت، شہرت اور مرتبہ لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی کا اختتام ایک المیے پہ ہوا۔ یہ انیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے۔ الیگزینڈر ہملٹن اور امریکا کے ایک سابق نائب صدر ” بر“ جو کل تک ایک دوسرے کے دوست اور حلیف تھے دشمنی کی راہ پر چل پڑے۔ یہ دشمنی سیاست کی وجہ سے تھی ۔ برکا شکایت تھی کہ وہ امریکا کا صدر بن سکتا تھا لیکن ہملٹن کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ دشمنی حد سے بڑھی تو وہ دونوں مرنے مارنے پر تل گئے ۔ اس زمانے میں بڑے لوگ اپنے اختلاف حل نہ کر پاتے تو Duelکا راستہ اپنا لیا کرتے۔ یہ ایک انتہائی اقدام ہوتا تھا۔ ہملٹن اور بر کے دوستوں نے ان دونوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن غصے نے ان کی نگاہوں پہ پٹی باندھ دی اور وہ نفرت کی یلغار میں اندھے ہونے لگے۔ ڈوئل کے لئے گیارہ جولائی 1804کا دن مقرر ہوا، نیو یارک ،دریائے ہڈسن کا مغربی کنارہ، وی ہاکن نامی جگہ، ہملٹن اور برعلی الصبح اس مقام پر پہنچ گئے۔ ایک امریکا کا سابق وزیر خزانہ ،جنگ آزادی کا ہیرو ،اور دوسرا امریکی نائب صدر ۔ یہی نہیں، ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر بھی تھی۔ دونوں آزادی کے معمار بھی تھے ۔ ہملٹن کی عمر انچاس برس اور براس سے کچھ ہی بڑا ۔ گھڑیال بجا، حریف آمنے سامنے آئے، صلع کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے پشت جوڑی۔ مخالف سمت میں دس دس قدم آگے بڑھے ۔ رومال ہلنے پر پھرتی سے پلٹے۔ گولیاں چلیں۔ ہملٹن کی گولی درخت کی ایک شاخ چیرتی ہوئی گزر گئی لیکن بر کی گولی نشانے پر تھی ۔ ہملٹن کے پیٹ کے نچلے حصے پہ لگنے کے بعد یہ گولی گھومتی ہوئی پسلیوں تک جا پہنچی ۔ خون کا فوارہ سا پھوٹا اور ہملٹن اپنے ہی پاﺅں پہ گر گیا۔ہملٹن کو لگنے والا زخم کاری تھا، وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور اگلے روز یعنی بارہ جولائی کو دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہملٹن ایک بڑا آدمی تھا۔ وہ بر کے خون میں ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر غلط نشانہ لیا تھا۔ بہر حال یہ ایک اداس دن تھا، درد سے بھرا اور خون آلود۔ گولیوں کی آواز سے دریائے ہڈسن کا گہرا سکوت ٹوٹ گیا۔ معصوم پرندے انسان کو خون بہاتے ہوئے دیکھنے لگے۔ ہملٹن اور بر امریکا کے دو بڑے سیاست دان، آج دنیا میں نہیں۔ وہ پرندے بھی کہاں ہوں گے جنہوں نے انہیں خون بہاتے ہوئے دیکھا لیکن وی ہاکن نامی جگہ ، دریا کا کنارہ، شاہ بلوط کے دیو قامت درخت ابھی بھی ہیں۔ شاید ان پرندوں میں نسل در نسل یہ کہانی بھی سنائی جاتی ہو کہ انسان کس قدر ضدی ہے۔مجھے یہ کہانی اس لئے یاد آئی کہ آج مجھے آج سیاست ہی کے افق پر ایک اور طرح کی Duel ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہ Duel نیویارک نہیں، نیو یارک سے بہت دور اسلام آباد میں ہو گی۔ اس Duelکے کردار اور مقام مختلف ہیں لیکن ضد کا عالم مختلف نہیں۔ تاریخ ایک ہی جیسے واقعات رد و بدل کے ساتھ دہراتی رہتی ہے۔ عقل مند وہی ہیں جو ان واقعات سے سبق حاصل کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اختلافات کے حل کا کوئی پر امن طریقہ بھی تو ہو گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38