مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی،عدم برداشت اور قتل و غارت گری کا توڑ کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل اور حکمت عملی اختیار کی جائے جس کی بدولت ریاست کے تمام شہریوں کے مابین پائیدار برداشت،تعاون ،ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے ۔اس بارے میں ہمارے ہاں ایک سے زائد نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔ ایک نقطہ نظر مذہبی سیاسی جماعتوںاور فرقہ ورانہ گروہوں کا ہے ۔ا نکے نزدیک پاکستان میں سرے سے فرقہ ورانہ اختلافات ،مناقشت اور کشیدگی کا کوئی وجود ہی نہیں ، فرقہ واریت کے نام پر جو قتل و غارت گری اور مذہب کے پردے میںجو دہشت گردی ہورہی ہے ،وہ در حقیقت ’بیرونی عناصر‘ کی کارستانی ہے ۔ یہ ’ بیرونی عناصر‘ کون ہیں ؟ ان کی شناخت بھی فرقہ ورانہ حوالے سے ہی کی جاتی ہے ۔ سلفی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہونیوالے فرقہ ورانہ قتل کے پس پشت ایران ہے جب کہ اہل تشیع کے نزدیک یہ سعودی عرب اور مشرق وسطی کی شاہی حکومتیں ہیں جو ایران دشمنی میں ہمارے ملک میںیہ سب کچھ کروارہی ہیں ۔ اس اختلاف کے باوجود ایک بات پر وہ متفق ہیں کہ کوئی بھی ’حقیقی ‘ مسلمان یہ سب کچھ نہیں کرسکتا لیکن جب انھیں فرقہ ورانہ وابستگی کی بنیاد پر قتل ہونیوالے افراد اور ان وارداتوں میں ملوث افرادکی فرقہ ورانہ تنظیموںسے وابستگی کے بارے میںثبوت فراہم کئے جائیں تو یہ کہہ کر وہ جان چھڑا لیتی ہیں کہ ان جرائم اور مظالم کا ارتکاب کرنیوالے کچھ ’گمراہ ‘ افراد ہیں اور وہ یہ سب کچھ’ اپنے‘ طور پر کرتے ہیں اور جہاں تک تعلق ہے مذہبی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کا تو ان خونیں واقعات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیںہے۔ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ فرقہ ورانہ تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وہ کیا حل تجویز کرتی ہیں تو وہ اس کا نہایت آسان حل بتاتی ہیں۔ انکے نزدیک اگر ’حقیقی ‘ اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرا دیا جائے اور ’اسلامی نظام ‘ نافذ کر دیا جائے تو نہ صرف فرقہ واریت کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا بلکہ مذہب کے نام پر ہو نے والی قتل وغارت بھی رک جائیگی۔ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ’ حقیقی ‘ اسلام سے ان کی کیا مراد ہے اور اسکے عملی نفاذ کی صورت کیا ہوگی تو وہ اس کا تسلی بخش جواب دینے کی بجائے آپ کو لعن طعن کریں گی اور پھر بھی آپ اپنے سوال پر زور دیں تو ان سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ آ پ کو دائر ہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیں ۔ مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی اس مسئلے کے بارے میں جس کا براہ راست تعلق پاکستان کی بطور ریاست بقا سے ہے، سرے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ انکے نزدیک یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اور اگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کو بہتر اور مضبو ط بنا دیا جائے تو اس مسئلے سے بخوبی نبٹا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جبب کوئی فرقہ ورانہ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ گول مول سے اخباری بیانات جاری کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتی ہیں۔ انھیں زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ ان کا ووٹ بنک محفوظ رہے ، انسان مرتے ہیں تو مریں، اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ۔
کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور مختلف النوع فکری اور نظریاتی حلقوں سے وابستہ د انشوروںکی طرف سے فرقہ واریت اور عدم برداشت سے نبٹنے کیلئے بہت سے innovativeحل تجویز کئے جاتے ہیں ۔ ان کے خیال میں اگر انکے تجویز کردہ حل آزمائے جائیں تو ملک سے فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔بیرونی اداروں کے مالی تعاون سے چلنے والی کچھ این جی اوز فرقہ واریت کا حل بین المذاہب مکالمے میں ڈھونڈتی ہیں ۔ وہ اپنے اجلاسوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر معروف مذہبی رہنمائوں کو مدعو کرتی ہیں جو شرکا ء کو بتاتے ہیں کہ سبھی مذاہب اپنے پیروکاروں کو نفرت،دشمنی اور عدم برداشت کی بجائے پیار و محبت اور رواداری کا درس دیتے ہیں لیکن اس سوال کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ اگر تمام مذاہب صلح و آشتی کے موید ہیں تو پھر مذہب کے نام پر اس قدر خون ریزی کیوں ہے ؟۔بین المذاہب مکالمے کے داعیوںکے یہ وعظ فائیو سٹار ہوٹلوں کے ہالز تک محدود رہتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد کے اشتراک سے امن مارچ منظم کرتی ہیں تاکہ عامتہ الناس پر باہمی فرقہ ورانہ امن ،رواداری اور برداشت کی اہمیت واضح ہو سکے ۔چند درجن افراد پر مشتمل یہ امن مارچ وسیع تر عوام کو قطعا متاثر نہیں کرتے۔ ایک بڑاگروہ جو خود کو لبرل کہلانا پسند کرتا ہے ، کے نزدیک اس مسئلے کا حل’ صوفی ‘اسلام کے احیا میں ہے ۔اس گروہ کے زیر اثر تنظیمیں اور ادارے پنجابی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے صوفی شعرا کے کلام کی گائیکی کی مجالس منعقد کرتے اور صوفیا کے افکار میں مذہبی آہنگی کا درس تلاش کرتے ہیں ۔ یہ تنظیمیں اور ادارے قرون وسطی کے صوفیا کے افکار کو عوام میں مقبول بنانے کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان افکار کی مقبولیت سے مذہب کے نام پر جاری انتہا پسندی کے آگے بند باندھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ان کا دعوی ہے کہ اگر صوفی ازم جسے وہ’ صوفی ِاسلام ‘ کہتے ہیں،کا احیا ہوجائے تو ملک سے مذہب کے نام پر ہونیوالی دہشت گردی و فرقہ ورانہ نفرت اور کشیدگی ختم نہیں تو کم ضرورہو سکتی ہے ۔
صوفی ازم کا تعلق مذہب سے کم اور فلسفے سے زیادہ ہے ۔صوفیا ہر مذہب اور عہد میں رہے ہیں اوریہ سمجھنا کہ صوفی ازم صرف اسلام ہی سے مخصوص ہے محض فکری مغالطہ ہے ۔صوفی ازم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور سید علی عباس کیمطابق مذہب کی الہیات ، اخلاقیات اور تصوف کی الہیات و اخلاقیات میں بعد المشرقین ہے ۔تصوف ایک مستقل نظام فکر وعمل ہے جسے مذہب کا جز نہیں سمجھا جاسکتا ۔ (جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024