یوں تو ہر ملک میں ہر طرح کے جرائم کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں مگر ایسے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارا ملک ان سب سے بازی لے گیا ہے کراچی میں اگر روزانہ لاشیں گر رہی ہیں تو اس کی سمجھ آتی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارندے مال و دولت سے لدے اس شہر پر مکمل قبضہ کرکے بلا شرکتِ غیرے یہاں کے ریڑھی فروشوں سے لیکر چھوٹے موٹے دوکانداروں تاجروں اور صنعتکاروں سے اپنی اپنی جماعتوں کیلئے روزانہ زبردستی کڑوروں کا بھتہ وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر رہے ہیں اسی طرح جگا ٹیکس کی طرح کراچی کی بندرگاہوں پر اترنے والے ہر کنٹینر پر بھی بھتہ وصول کیا جا رہاہے اور بھتہ دینے سے انکار کرنے والوں کی بوری بند لاشیں ان کے گھروں کے سامنے پھینک دی جاتی ہیں پولیس اور تمام سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو ان بھتہ وصول کرنے والے افراد کے بارے میں نہ صرف علم ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ کون کون کہاں کہاں رہتا ہے اس لئے اگر حکومت چاہے تو یہ مسئلہ چند گھنٹوں میں حل ہو سکتا ہے اور کراچی کے شہریوں کو ان درندوں سے نجات دلوائی جا سکتی ہے لیکن جب حکومت اور اس کے اہل کار خود ہی اس گھناو¿نے فعل میں ملوث ہو ں تو مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ البتہ ان سب نے مل کر بچارے عوام کا جینا ضرور حرام کر رکھا ہے جو گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن کی طرح پستے جا رہے ہیں۔
کراچی میں ہونے والی اس روزمرہ کی قتل و غارت کے دوران ہی ایک ٹی وی پروگرام میں کراچی لاہور اور چند دوسرے شہروں میں جانوروں کی انتڑیوں، چربی اور ہڈیوں سے تیل نکال کر بازاروں میں فروخت کرتے دکھایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہ تیل نکالنے کیلئے مردہ جانور بلکہ مردہ کتے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد پھر بتایا گیا کہ یہ وحشی ابھی تک یہ دھندہ کر رہے ہیں اور اور ہماری پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
ابھی اس دل ہلا دینے والے انکشاف سے سنبھل نہ پائے تھے کہ ایک اور ٹی وی پروگرام میں دکھایا گیاکہ لاہور کراچی اور دیگر کئی شہروں میں انٹرنیٹ کیفے کے نام سے چلائے جانے والے سینکڑوں اڈوں میں انتہائی فحش فلمیں دکھائی جا رہی ہیں جہاں زیادہ تر ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جاتے ہیں۔
حیرت اس بات پہ ہو رہی تھی کہ یہ سب کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سر پرستی میں ہو رہا تھا پولیس افسران انٹر نیٹ کیفے کے مالکان کو گرفتار کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر ٹی وی ٹیم کے ارکان سے ہاتھا پائی کر رہے تھے جو ان فحاشی کے اڈوں کی فلمیں بنا رہی تھی ابھی تک نہ تو لاہور اور نہ ہی کراچی میں کسی پولیس آفیسر یا کسی انٹر نیٹ کیفے کے مالک کی گرفتاری کی کوئی خبر آئی ہے۔
ہم تو اب تک یہی سنتے آرہے تھے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن جب یہ دیکھنے سننے اور پڑھنے میں آیا کہ کر اچی میں ایک پانچ سالہ بچی فیصل آباد میں ایک آٹھ سالہ بچی اور لاہور میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے تو میں سکتے میں آ گیا۔
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں پریشانی کی حالت میں سوچتا رہا کہ کیا یہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کرنے والے انسان ہیں یا وحشی درندے؟ اور کیا ہم کسی مہذب ملک میں رہ رہے ہیں یا کسی بیابان جنگل میں؟ آخر لاقانونیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی تک ان درندوں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی خبر نہیں آئی۔
لاہور اور کراچی میں مرے ہوئے جانوروں کی انتڑیوں چربی اور ہڈیوں سے تیل نکال کر بازاروں میں کھلے عام فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی ابھی تک کوئی کاروائی شروع نہیں کی گئی اور نہ ہی پنجاب کے خادم اعلےٰ کہلوانے والے وزیر اعلےٰ نے انٹر نیٹ کیفے کے بہانے فحاشی پھیلانے والوں کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھایا ہے۔
آخر ان سب برائیوں کا کیا علاج ہے میرے خیال میں اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایسے گھناو¿نے فعل کرنے والوں کیلئے پھانسی کی سزا تجویز کی جائے اور ان کے خلاف مقدمات کی سماعت بغیر کسی التوا کے تیزی کے ساتھ نپٹائی جائے اور ان تمام وحشی درندوں کے خلاف جرم ثابت ہونے کے بعد انہیں جیل کے اندر نہیں بلکہ جیل کے باہر اسی شہر کے بڑے چوک میں سر عام پھانسی کے تختے پر لٹکایا جائے اور ان دو چار سو درندوں کی سر پرستی کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے تاکہ دوسروں کیلئے ایک عبرتناک مثال بن سکے۔
ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ اپر دیر میں میجر جنرل ثنااللہ نیازی لیفٹینٹ کرنل توصیف اور لانس نائک عرفان ستار کی جیپ کو بارودی سرنگ سے اُڑا دینے کی خبر سنی جس میں وہ تینوں موقع پر ہی شہید ہو گئے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی یہ ایک ایسے وقت پہ ہوا جب اے پی سی نے متفقہ طور پر طالبان سے امن مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور طالبان کے مطالبے کے مطابق ان کے سات دہشت گرد بھی رہا کر دیئے تھے جس کا جواب طالبان نے ہمارے فوجی افسران کی شہادت سے دیا ہے۔
حکمرانو! خدا کیلئے ہمیں بتاو¿ کہ قائد اعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں خاموش ہیں؟ ہمیں بتایا جائے کہ کیا ایسے لوگوں سے کسی قسم کے مذاکرات ممکن ہیں اور کیا ایسے مذاکرات کے کوئی مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024