پاکستان کے سابق اور غیرآئینی ڈکٹیٹر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے جعلی اور غیرآئینی اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ایک جعلی ریفرنڈم کا سہارا لیا، ریفرنڈم انتخابات کا نعم البدل نہیں ہوتے کیونکہ ریفرنڈم صرف ایک واحد ایشو پر ہوتا ہے اور اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہوتا ہے جبکہ صدر کو لاکھوں ایشوز پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس ریفرنڈم میں پرویز مشرف کی حقیقتاً ضمانت ضبط ہوگئی تھی لیکن جب آپ کو پاکستان الیکشن کمیشن جیسی موم کی گڑیا مل جائے تو آپ کا حسن کرشمہ ساز کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ الیکشن کمیشن تو وزیر خزانہ کو آفس میں ہوتے ہوئے 2 سیٹوں سے بھاری اکثریت سے الیکشن بھی جتوا سکتا ہے۔جناب شوکت عزیز جن کا تعلق ربوہ سے تھا اور پاکستان کے آئین کے مطابق مسلم سیٹ پر حصہ لینے کے ویسے بھی اہل نہیں تھے لیکن ہمارے ادارے جب تک دل کھول کر دھاندلی نہ کرلیں ،ان کو چین نہیں آتا۔
محترم فخرالدین جی ابراہیم نئے چیف الیکشن کمشنر ہیں اور قوم کو ان سے بہت سی توقعات ہیں۔ ہم ان سے امید رکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ماضی میں جو ریکارڈ دھاندلی کی ہے، نااہل لوگوں کو انتخابات لڑنے دیا، ریفرنڈم پر قوم کے اربوں روپے ضائع کئے، وہ ان سب کا کڑا احتساب کریں گے اور ”مٹی پاﺅ“ والا رویہ اختیار نہ کریں گے۔ ہم نے اس وقت بھی خود الیکشن کمیشن میں جا کر پرویز مشرف کے ریفرنڈم اور صدارت کے خلاف درخواست دی تھی۔ بعدازاں ریفرنڈم پر اٹھنے والے اخراجات اور دھاندلی پر بھی احتجاجی درخواست دی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے اپنا فراڈ چھپانے کیلئے سارا ریکارڈ نذرآتش کر دیا۔
غیرآئینی صدر پرویز مشرف نے دوسرا کام یہ کیا کہ انہوں نے پرانی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو ”منتخب“ کروا لیا، اس صریح دھاندلی کے خلاف بھی ہم نے سپریم کورٹ میں مشرف کے خلاف رٹ داخل کی، جس کی سماعت جاری ہی تھی کہ مشرف نے 3نومبر کو تاریخ کی سب سے بڑی اور دہشت گرد توہین عدالت کر دی اور یہ تمام کیسز منجمد ہوگئے۔ ہم نے اپنی رٹ پٹیشن میں مختلف بین الاقوامی حوالوں اور انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا وغیرہ کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ :
(1) انتخاب کا مطلب تازہ اور فریش مینڈیٹ لینا ہوتا ہے، چاہے یہ مینڈیٹ براہ راست ہو یا بالواسطہ۔
(2) جس انتخاب میں تازہ مینڈیٹ نہ لیا جائے، وہ فراڈ اور شرمناک الیکشن کہلاتا ہے۔
(3) اپنی ٹرم مکمل ہونے پر خادم یعنی حکمران اپنے اصل حکمران یعنی عوام کے پاس جاتے ہیں اگر عوام (حقیقی حکمران) کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کر دیتے ہیں وگرنہ دوسرے ملازم (یعنی حکومت) رکھ لیتے ہیں۔
(4) پرانی اسمبلیاں اپنی مدت کے بعد از ایام کےلئے قوم پر نئے حکمران مسلط کرنے کی مجاز نہیں کیونکہ مدت گزرنے پر وہ اب نہ تو عوام کی نمائندہ رہیں اور وہ تازہ اور فریش مینڈیٹ کو ظاہر نہیں کرسکتیں۔
(5) نئے انتخابات کے وقت بے شمار نئے ووٹرز بن چکے ہوتے ہیں اور بہت سے پرانے ووٹرز اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہوتے ہیں۔ صدر کے انتخاب میں ان نئے ووٹرز کی آراءہونا ضروری ہے اور مرحومین کے ووٹ کا اخراج بھی۔
ہماری قوم کے نام نہاد نمائندے قوم کے ساتھ بدترین دھاندلی کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں ”جائز اور ناجائز“کچھ ہوتا ہی نہیں، بس ان کا اُلو سیدھا ہونا چاہئے۔ وہ وقت آئے تو عوامی عدالت کی بات کرتے ہیں لیکن اگر عوام انہیں وزیراعظم منتخب نہ کرےں تو پاکستان کو دولخت کرکے ”نیاپاکستان“ بنا کر آدھے پاکستان کا وزیراعظم بن جاتے ہیں بجائے اپوزیشن لیڈر بننے کے۔ جب اقتدار خطرے میں ہو تو پاکستان ٹوٹنے اور توڑنے کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ امریکہ سے مل کر افواج پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاکستان اور عوام کا وفادار بھی گردانتے ہیں۔ ان رنگیلے شاہوں پر داد کے ڈونگرے برسانے والوں، قصیدے لکھنے والوں اور بھنگڑا ڈالنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں اور ان نام نہاد دانشوروں کی بھی جو انتہائی بے ضمیری کے ساتھ سمندر میں غوطے لگا کر نت نئے موتی نکال کر حضور والا کی خدمت اقدس میں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر نمرود اور ہر فرعون کو ایسے لوگ میسر تھے اور ان سب کا شمار ان کی آل میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ”اس نے آل فرعون کو غرق کر دیا۔“
ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پاکستان کے سفیر نے ریاض میں راقم الحروف سے اپنے دفتر میں یہ فرمایا کہ جو لوگ اکھنڈ بھارت کی بات کرتے ہیں، ان کی بات میں بھی وزن ہے۔ میں سوچتا رہ گیا کہ یہ پاکستانی سفیر ہیں یا بھارتی؟ اب یہ محترم بھی دانشوروں کی اس ٹولی میں شامل ہیں جنہیں ہر چیز پر تبصرے کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ اکثر ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں اور ہمیں کشمیر کو بھول جانے کا درس دیتے ہیں۔ پرویز مشرف سے ایک صحافی نے جب جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ گڑھے مردے نہ اکھاڑیں، اس وقت پھر یہ لگا کہ وہ بھارت کے صدر ہیں کہ پاکستان کے؟ آئین کے پرخچے اڑانے والے اور افواج پاکستان میں اپنے حلف کی بدترین خلاف ورزی اور غداری کے مرتکب ڈکٹیٹر تو پرانی اسمبلیوں سے ”منتخب“ ہوسکتے ہیں لیکن عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اور نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھی عوامی مینڈیٹ سے فرار کی منصوبہ بندیاں اور سازشیں کریں تو ملک کے اصل حکمران یعنی عوام کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ ایسے بددیانت اور خائن افراد کا حشر آل فرعون کا سا کر دیں اگر وہ ایسا کریں تو یقینا بندہ مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوگا، غالب، کارساز اور کارفرما۔
انتخاب چاہے پوری گورنمنٹ کا ہو، وزیراعظم کا ہو یا صدر کا سب کو تازہ عوامی اعتماد اور مینڈیٹ چاہئے۔ یہ انتخابات چاہے بلاواسطہ ہوں یا بالواسطہ، صدر کو بھی وہی اسمبلی منتخب کرسکتی ہے جس کو خود فریش مینڈیٹ حاصل ہو۔
جہاں لاءاینڈ آرڈر نہیں ہوتا، وہاں عوام لا یعنی قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ سے بھی دردمندانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ عدالت عظمیٰ میں مشرف کےخلاف جو کیسز 3 نومبر کو چل رہے تھے، ان کو بحال کیا جائے اور ان پر حتمی فیصلہ دیا جائے تاکہ مستقبل میں لوگ مشرف جیسے فراڈ اور دھاندلیوں کے مرتکب نہ ہوسکیں۔ مشرف کو انٹرپول کے ذریعے منگوا کر آئین پاکستان توڑنے، عدالتوں پر بدترین دہشت گردی کرنے، لال مسجد، 12مئی، چیف جسٹس پر اسلام آباد میں حملہ کرنے، چیف جسٹس صاحب کے رفیق کار کو قتل کرنے، ایڈووکیٹ جنرل (سابق) اقبال رعد کو دن دہاڑے قتل کرنے اور اکبر بگٹی کو قتل کرنے کے مقدمے چلا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ بلوچستان کے عوام اور پورے پاکستان کے مظلومین کے دل ٹھنڈے ہوں اور پاکستان مستحکم اور توانا ہو۔
ہم محترم چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور عدالت عظمیٰ سے یہ جائز امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی تازہ حقیقی عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں د یگی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38