سانحہ کارساز کے شہیدوں کو سلام

Oct 18, 2023

قیوم نظامی

پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف چاہتے تھے کہ محترمہ بینظیر بھٹو 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان واپس آئیں- طالبان بے نظیر بھٹو کو خود کش حملے کی دھمکیاں دے رہے تھے- جنرل پرویز مشرف فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرانے سے گریز کر رہے تھے- محترمہ بےنظیر بھٹو نے انتخابات سے پہلے پاکستان واپس آنے اور انتخابی مہم کی سربراہی کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا- ان کا خیال تھا کہ پاکستان آمرانہ سیاست کی وجہ سے ایسے نازک موڑ پر پہنچ چکا تھا کہ اسے اور عوام کو سیاسی بصیرت اور دانش کی حامل قیادت کی ضرورت تھی- اس وقت راقم محترمہ بینظیر بھٹو کی میڈیا معاونت کر رہا تھا- انہوں نے میری ذمے داری لگائی کہ ان کے قائد اعظم کے مزار سے ملحقہ پارک میں جلسہ عام سے خطاب کے لیے پہنچنے سے پہلے سٹیج کو کنڈکٹ کروں- جب محترمہ بینظیر بھٹو کراچی ائیرپورٹ پہنچیں اس وقت راقم ایئرپورٹ کے سامنے موجود تھا- محترمہ جہاز سے باہر نکلیں تو آسمان کی جانب دیکھ کر دعا کے ہاتھ اٹھائے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے-پاکستان کے مختلف اضلاع سندھ اور کراچی کے عوام نے محترمہ کا بے مثال والہانہ اور پر جوش استقبال کیا- محترمہ کی سیکورٹی کے لیے پی پی پی کے سینکڑوں جیالے جان نثاروں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں جو محترمہ کے ٹرک کے ارد گرد پیدل ریلی کے ساتھ چل رہے تھے- تاریخی ریلی آہستہ آہستہ اپنی منزل مزار قائد کی جانب بڑھ رہی تھی- سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر محترمہ بےنظیر بھٹو کا ٹرک خصوصی طور پر تیار کرایا گیا تھا تاکہ امکانی خود کش حملے کی صورت میں ٹرک پر سوار لیڈروں کو محفوظ رکھا جا سکے-پی پی پی کے جان نثار غریب جیالے بڑی تندہی اور جاں فشانی کے ساتھ سیکورٹی کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور مرکزی ٹرک کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے-
جب ریلی کارساز کے مقام پر پہنچی تو محترمہ کے ٹرک پر خود کش حملہ ہوگیا - یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ 180جیالے موقع پر شہید ہو گئے اور 500 سے زائد زخمی ہوئے-تعداد کے حوالے سے یہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا سانحہ تھا - سانحہ کارساز کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے فیض احمد فیض کی ایک لازوال نظم کے چند اشعار کا سہارا لیتا ہوں-
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو تیرے صحراو¿ں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نا آسودہ اقرار ہوئے
خواب کتنے تیری شاہراہوں پہ سنگسار ہوئے
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے
ایک عینی شاہد کے مطابق ایک معصوم بچے کو خود کش دھماکے کے لیے استعمال کیا گیا - منصوبہ ساز چاہتے تھے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اس بچے کو اٹھا کر پیار کریں اور اس لمحے دھماکہ کر دیا جائے- جب ایک جیالے نے بچے کو محترمہ کے قریب لے جانے کے لیے اوپر اٹھایا تو محترمہ نے بچے کو دور سے ہاتھ کے اشارے سے پیار کیا- جب بچہ واپس لانے والے کے ہاتھوں میں گیا تو پہلے ایک اور اس کے بعد دوسرا دھماکہ ہوا - منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو خود کش حملے سے خوف زدہ ہوکر پاکستان سے باہر چلی جائیں گی- مگر انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور دھماکہ کے دوسرے روز زخمی جیالوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں- محترمہ بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس جارہی تھیں - 18 اکتوبر اور 27 دسمبر کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد کرائم سین کو پانی سے صاف کر دیا گیا تاکہ موقع پر کوئی ثبوت نہ مل سکے- پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ غریبوں کے بچے ہی جیلوں کی صعوبتیں شاہی قلعوں کے تشدد برداشت کرنے کے علاو¿ہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں- غریب سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کا پھل اکثر اوقات سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی کھاتے رہے ہیں- قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے- پی پی پی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے لیڈروں نے پاکستان کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں- ذوالفقار علی بھٹو شہید محترمہ بینظیر بھٹو شہید میر مرتضیٰ بھٹو شہید اور میر شاہنواز بھٹو شہید کی قربانیاں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی- سانحہ کارساز کے شہید پی پی پی کے ہیروز ہیں- پارٹی قیادت کو پی پی پی کے شہیدوں اور غازیوں کی تاریخ مرتب کرنی چاہیے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اس تجویز پر توجہ دیں- پی پی پی آج بھی قومی سیاسی جماعت ہے۔ اس کی سیاسی تاریخ شاندار اور یادگار ہے- پی پی پی کی سیاسی تاریخ پر ایک مستند کتاب لکھی جانی چاہیے تاکہ نوجوان جیالے پی پی پی کی سیاسی جدو جہد سے آگاہ ہو سکیں - سیاسی سرگرمیوں پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے تاکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سے سرمایہ اور غریب کارکنوں کی قربانیوں کو نکالا جا سکے- سیاست سستی بھی ہو اور اس کی سرگرمیاں محدود رہیں تاکہ غریب کارکنوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھا جا سکے - دنیا کے کئی جمہوری ملکوں میں سیاسی و انتخابی سرگرمیوں کو محدود اور محفوظ رکھا جاتا ہے-پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا - غریب خاندانوں کے نوجوانوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دروازے کھولنے چاہیں تاکہ وہ اپنے طبقے کے بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ کر سکیں -

مزیدخبریں