موجودہ بدلتی دنیا میں دنیا کی واحد سپر پاور یعنی امریکہ کے علاوہ حالات تیزی سے تبدیل کا شکار رہتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کو لے کر ہمارے خطے میں اہم سیاسی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ موجودہ افغانستان عملی طور پر بھارت کے اثرورسوخ سے آزاد ہو چکا ہے۔ روس کے بدلتے تیور ، اور چین کی تیزی سے بڑھتی معیشت اور فوجی طاقت بھی علاقے اور تمام دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہیں۔ خطے میں کوئی سیاسی یا کسی بھی قسم کی تبدیلی آئے اور بھارت اور پاکستان کے درمیا ن کھینچا تانی نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ پاک بھارت کشمکش اور مفادات کا ٹکرائو تو اسی طرح موجود ہے لیکن ہمارے خطے کے دیگر ممالک کے مفادات تبدیل ہو چکے ہیں یا ہونا ناگزیر ہیں۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت قائم رکھانا چاہتا ہے۔ فی الحال رو س تو امریکہ کو کوئی سنجیدہ چیلنج دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن چین کی فوجی اور اقتصادی طاقت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ فوجی طاقت میںتو امریکہ چاہے ابھی چین سے آگے ہو لیکن معاشی میدان میں چین جنگ جیتتا نظر آ رہا ہے۔ پہلے وقتوں میں فوجی طاقت کے بل پر ہی دنیا کی سوپر پاور کا فیصلہ ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں جب تمام ممالک کی معیشت آپس میں جڑ گئی ہے تو صرف فوجی طاقت اور اسلحے کے ڈھیر کسی ملک کو قائم رکھنے کے لیے کافی نہیں، بلکہ مضبوط معیشت کے بغیر یہ سب بیکار ہے۔ اور چین تو مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کا مرکز بنتا جا رہا ہے جبکہ فوجی طاقت کے لحاظ دنیا کی واحد عالمی طاقت ، امریکہ کی معیشت اسکی فوجی طاقت کا ساتھ نہیں دے پا رہی، اور دنیا کی مکمل حکمرانی کا تاج امریکہ سے سر پر زیادہ دیر قائم رہتا نظر انہیں آتا۔ یہ حقیقت امریکہ کے پالیسی ساز بھی جانتے ہیں ۔ تاریخ دان اور خارجہ امور کے ماہر ایک اصطلاح ''Thucydides Trap" استعمال کرتے ہیں جسکا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ایک سوپر پاور جو بظاہر دنیا پر راج کر رہی ہو، جب کسی اور طاقت کو ابھرتے ہوئے دیکھتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ نئی طاقت مستقبل میں اس کی ’’واحد سپر پاور‘‘ کی حیثیت کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے تو وہ اس پریشانی اور خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ یہ نئی طاقت دنیا میں اسکی ’’بادشاہ‘‘ کی کرسی چھین نہ لے ۔ یہ خوف اور ٹینشن اسے اس ابھرتی طاقت کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو آخر کار ایک بڑ ی جنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ا گر ہم ’’ ایتھنز اور سپارٹا ‘‘ سے لے کر پندرہویں صدی سے آج تک ہونے والی بڑی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو فرانس، ہالینڈ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان سمیت بہت سے ممالک اسی خوف میں یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے جنگیں لڑتے رہے۔ سب سے آخر میں 1940ء سے دسمبر 1991ء کا روس امریکہ سرد جنگ کا زمانہ جس میں دنیا کئی بار جنگ اور تباہی کے دھانے پر پہنچی ۔ یہ سرد جنگ روس کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی لیکن یہ شکست روس نے روائتی جنگ میں نہیں بلکہ معاشی میدان میں کھائی تھی۔ آج کی ابھرتی ہوئی طاقت یعنی چین، نہ صرف فوجی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے بلکہ معاشی میدان تو امریکہ سے ایک قدم آگے برھتا نظر آ رہا ہے۔ پچھلے پچاس سال میں چین کے جی ڈی پی میں تقریباََ 2000 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت چین کے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کی مالیت کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
پاکستان کے چین کے ساتھ دیرینہ مضبوط تعلقات ڈھکے چھپے نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین کی ’’ معاشی شہہ رگ‘‘ یعنی ’’ Belt and Road Initiative" کا اہم ترین حصہ پاکستان ہے۔ دوسری جانب بھارت کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کی بنا پر بھارت امریکہ کی آنکھوں کا تارا بن چکا ہے۔ اسی طرح امریکہ سے سابق ’’ قریبی حلیف‘‘ پاکستان کی سیاسی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے کی کڑی کے طور پر روس اور ایران بھی پاکستان بھی مزید قریب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان سب تبدیلیوں کا محور صرف امریکہ کی چین سے مخاصمت نہیں بلکہ حالات میں ان تبدیلیوں کو عالمی معیشت، تجارت اور تیل کی مجوزہ پائپ لائنوں (بشمول وسط ایشیائی ریاستیں) کے تناظر میںسمجھنا ضروری ہے۔
بہتر تو یہ ہوتا کہ چین، روس، انڈیا، برازیل، ایران اور پاکستان ( یا ان میں سے کچھ ممالک) کے ساتھ مل کر ایک بلاک تشکیل دینے کی کوشش کرتا۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں ایسے حل طلب تنازعات ( جن میں سب سے اہم جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے) موجود ہیں کہ دونوں ایک عالمی بلاک میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ دوسری جانب عالمی سیاست کا موجودہ ’’ شاہ‘‘ یعنی امریکہ بھی ایسا کچھ ہونے نہیں دے گا جس سے عالمی طاقت اور معیشت کا مرکز اس خطے کے ان ممالک میں آ جائے۔ امریکہ بہادر تو ویسے بھی "Preemptive Strikes" پر یقین ر رکھتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو (۱) ملٹری ایڈ ، (۲) اکنامک ایڈ اور (۳) USAID کی مد میں امداد ، دیتا ہے 2002 ء سے لے کر 2011ء کے درمیان اس کا ٹوٹل حجم تقریباََ 17.478 بلین ڈالر تھا۔ قیام پاکستان سے اب تک 66 برس میں امریکہ نے سب ملا کر تقریباََ 68 بلین ڈالر ہمیں دئیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نام نہاد ’’ وار آن ٹیرر ‘‘ میں ہمارے نقصانا ت کا تخمینہ تقریباََ ایک سو بلین ڈالر ہے۔ بہر حال ایک طرف 66 برس میں 68 بلین ڈالر اوردوسری جانب چین کی جانب سے پاکستان میں یکمشت 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ایک طرح سے چین کی جانب سے امریکہ کو چیلنج ہی ہے ۔ اس تمام صورتحال میں چین کے خلاف امریکہ کا بہترین حلیف بھارت ہی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ چین کے اگلے منصوبوں میں مکمل بلوچستان کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی سرکا ر ویسے تو عقل و خرد سے عاری نظر آتی ہے لیکن کیا وہ امریکی دوستی میں اتنی بڑی حماقت کر جائے گی جو اسکے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو؟ چین بھارت کو سمجھا بھی رہا ہے اور ساتھ ساتھ اسکے اور اپنے سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت میں بڑی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ کیا موجودہ یا آنے والی کوئی بھارتی حکومت اس حقیقت کو سمجھے گی کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں بلکہ اسکے لیے دوستی صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا نام ہے۔ اسکے لیے مفید چاہے کوئی ملک ہو یا شخصیت۔ اس وقت بھارت اور تمام خطے کے لیے سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ وہ روائتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے زمینی حقیقت کو تسلیم کر لے کہ نہ تو اسکی پاکستا ن کو ’’ ڈکٹیشن ‘‘ دینے اور اپنی ہر بات منوانے کی خواہش کبھی پوری ہو سکتی ہے اور نہ بھارت چین سے طاقت کے زور سے اپنی کوئی بات منوا سکتا ہے اور بھارت کو بالاخر ’’ کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ کی حقیقت پسندانہ پالیسی ہی اپنانی پڑے گی۔ پاکستان اور بھارت جتنا جلد اس سلسلے میں عملی اقدامات کر لیں اتنا اس خطے اور ان دونوں کے مفاد میں ہو گا۔
بدلتی علاقائی سیاست اور بھارت کا کردار
Oct 18, 2021