اللہ رب العالمین، نوحہ کروں یا مرثیہ لکھوں، قبلہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے انتقال کی خبر نے اندر سے توڑ کر رکھ دیا،یہ لکھتے ہوئے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اپنی زندگی میں وہ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں رہائش پذیر تھے مگر اب وہ جنت کے مکین ہوگئے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سچے عاشقِ رسولؐ اور تصوف سے شغف رکھنے والے مسلمان ایٹمی سائنسدان تھے۔ اسلام کے متعلق ان کا وژن بہت واضح تھا، ہمارا دشمن ملک انکے کارنامے کی وجہ سے ہماری پاک سرزمینِ وطن کو چھو تک نہیں سکتا، ہر پاکستانی ان کی وفات پر سکتے میں آ گیا۔ بائیس کروڑ آنکھیںاشکبار ہیں اور ہر دل سوگوار ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر انکے اہل خانہ نے قوم کے نام ایک پیغام لکھا‘ اس پیغام میں ہمارے بہت کچھ ہے اور حکمرانوں کیلئے بھی۔ پیغام کو غور سے پڑھا جائے تو اس میں کہا گیاکہ اے کیوخان نے اپنی پوری زندگی پاکستان اور اسکے عوام کی بہتری میں صرف کی،وہ پاکستان اور پاکستانی عوام سے بہت محبت کرتے تھے،ہم تعزیت کا اظہار کرنے والے سب لوگوں کے شکرگزار ہیں،ان کی تعزیت اور دعاکیلئے سارا دن بے شمار فون اور پیغامات موصول ہوئے،عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ہمارے لئے وہ ایک محبت کرنیوالے شوہر، شفیق باپ اور نانا تھے،انکے نقصان پر ہم سب دکھی ہیں اور ہمیشہ انکی کمی محسوس کرینگے،آپ آج محفوظ ہیں تو اس کیلئے اے کیوخان کے شکرگزار ہیں،اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کو رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا کہ وہ پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر دفاعی نظام دے کر گئے ہیں اور نہ مٹنے والی تاریخ چھوڑ کرگئے ہیں،وطن عزیز کو جوہری طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال سے پاکستان اپنے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان سے محروم ہو گیا ہے۔ فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔60ء کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے 15برس میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، نیدرلینڈکی ڈیلیفٹ یونیورسٹی اور بلجیم کی آف لیوئون یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ہالینڈ سے ماسٹرآف سائنس جبکہ بیلجیم سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی سند پائی۔ مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز پاکستان کے ایٹمی پروگرام میںشرکت کی اور اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو ناممکن نظر آتا تھا،ڈاکٹر صاحب کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نوازا گیا،ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز بھی دیا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستانی قوم کا سرمایہ افتخار تھے، بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہمیں اپنا اپنا گریبان جھانکنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں، داکٹر صاحب کے انتقال پر پورا ملک سوگوار ہے، پوری قوم بلکہ ملتِ اسلامیہ انکی راہ میں آنکھیں بچھاتی رہی، جب سے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوئے، انہوں نے تن من دھن ایک کرکے اپنی ساری سانسیں اس پروگرام کو دے دیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان اور ڈاکٹر قدیر خان پر افتاد آن پڑی، مگر وہ ثابت قدم رہے، اپنی زندگی کے آخری دس پندرہ سال انہوں نے اپنے گھر میں گزارے۔ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا،اگر ملک کی معاشی ترقی کیلئے انہیں استعمال کیا جا سکتا تو وہ کارِ نمازیاں کر کے دکھا سکتے تھے۔پاکستان کی سائنسی بنیاد کو مضبوط بنا سکتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا،۔نہوں نے بستر علالت سے قوم کے نام ایک اپیل بھی جاری کر دی تھی، جس میں کہا گیا تھا: ’’ہم سب کو اللہ رب العزت نے پیدا کیا ہے،اور ہم سب کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ خالق حقیقی کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہے۔مَیں چند دِنوں سے سخت بیمار ہوں،علاج جاری ہے۔گناہ گار ہوں۔ دُعائے مغفرت کرتا رہتا ہوں، آپ سب سے میری درخواست ہے کہ میری صحت یابی کی دُعا کریں۔میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ نے میرے لیے نمازِ جنازہ پڑھنا ہے، اور دُعائے مغفرت کرنا ہے۔ ‘‘انہوں نے اپنے اسی پیغام میں کہا تھا: ’’مَیں نے دِل و جان اور خون پسینے سے ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ جو کہا گیا اس پر عمل کیا۔کوئی غلط کام نہیں کیا، اور نہ ہی میرے محب وطن ساتھیوں نے کوئی غلط کام کیا۔میرا اللہ میرا گواہ ہے۔مَیں جہاں چاہتا چلا جاتا، کھرب پتی ہو جاتا۔ مجھے پاکستان عزیز تھا۔آپ عزیز تھے۔آپ کی حفاظت و سلامتی میرا فرض تھا۔مَیں دسمبر1971ء کو کبھی نہ بھلا سکا۔‘‘ ان کا یہ پیغام قوم کے لیے آج اثاثہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہسپتال میں کئی روز زیر علاج ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے اورانہیں گھر منتقل کر دیا گیا،جہاں انکی خدمت کیلئے ہسپتال انتظامیہ نے تربیت یافتہ خدمت گزار بھی مقرر کر دیئے۔ ہر آنے والا دن ان کی صحت میں بہتری کی خبر لا رہا تھا، انکے کروڑوں مداحین اپنے رب کے حضور سربسجود تھے کہ ان کی دُعائیں قبول ہوں گی۔لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ان کی طبیعت بگڑی،انہیں ہسپتال لے جایا گیا،لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ فیصل مسجد اسلام آباد میں ادا کی گئی، اُنہیں قومی اعزاز کیساتھ سپردِخاک کیا گیا پاکستانی پرچم سر نگوں ہوا،اور قومی سوگ کا بھی اعلان کیا گیا۔ پوری قوم نے یک آواز ہو کر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا، اور الوداع کہا،ڈاکٹر صاحب کی خواہش کیمطابق شہر شہراور بستی بستی ان کیلئے دُعائے مغفرت کا اہتمام شروع ہے،ہر شخص ان کیلئے محو ِ دُعا ہے۔انہوں نے پاکستان کو وہ کچھ دیا جو کوئی دوسرا نہ دے سکتا ہے، نہ دے سکے گا وہ پوری قوم کے ہیرو ہیں، ہیرو تھے اور ہیرو رہیں گے۔ اُنہیں ہر ہر پاکستانی کا سلام پہنچے،وہ ہم سب کے تھے، اور ہم سب ان کیلئے دُعا گو رہیں گے۔
آج کا سچ یہی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت اور دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر کے انتقال پر پوری قوم سوگوار ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو کے دل میں یہ بات آئی کہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہونا چاہیے، جس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ مل کر پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا، بھارت نے 1974 میں ایٹمی تجربہ کیا تو ہالینڈ میں موجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہونا چاہتا ہوں، بھٹو نے انہیں فوری طور پر پاکستان آکر ملنے کی دعوت دی۔یوں دسمبر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آغا شاہی کے ہمراہ ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کی، اس کے بعد وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہوگئے۔ان دنوں اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر منیر احمد خان تھے، جنہیں ہٹا کر ڈاکٹر اے کیو خان کو اس کا سربراہ مقرر کردیا گیاکچھ عرصہ بعد جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء لگا کر ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا تاہم وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز پاکستان کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں مصروف رہے، ڈاکٹر قدیر خان نے بہت نشیب و فراز دیکھے، ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا۔ ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اور اس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے۔ انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ ’کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہو رہا ہے، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ بھٹو دور میں ایک بار مایوس ہوئے اور وزیر اعظم کو خط لکھا کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا لہٰذا انہیں واپس جانے کی اجازت دی جائے، بھٹو نے یہ خط اس وقت کی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بھجوادیا تھا ۔یہ غالباً1976 کی بات ہے کہ جب ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا اور اپنے تحفظات بتائے کہ کام سست رفتاری سے ہو رہا ہے، حتی کہ خط میں اس قدر مایوسی کا ظاہر کیا اور کہا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں اس خط کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آغاشاہی، امتیاز احمد، اے اجی این قاضی، غلام اسحق خان، کے علاوہ سیکرٹری دفاع اور دیگر اہم افراد کو ہدائت کی کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے تحفظات سنیں اور انہیں دور کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کی جائے، بہر حال متعدد ملاقاتوں میں یہ بات طے ہوگئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک خود مختار ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور کوئی مداخلت نہیں ہوگی، ایک ملاقات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ان کی ایک خصوصی ملاقات ہوئی اوراس ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے سینئر آرمی آفیسر زاہد علی اکبر کو ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا، یوں ڈاکٹر کے کام میں نکھار بھی آگیا اور تحفظات بھی دور ہوئے اور دفاع پاکستان کی کہانی آگے بڑھنے لگی اور ایک دن آیا کہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ تیار کرلیا گیا اور محض اعلان باقی تھا، یہ منزل پاکستان نے جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں حاصل کرلی تھی، اور انہی کے زمانے میں کولڈ ٹسٹ بھی کرلیا گیا تھا یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے پڑوس میں افغان جہاد جاری تھا، پوری دنیا کی نظریں اس جہاد پر تھیں اور جنرل ضیاء الحق خاموشی کے ساتھ مکار دشمن کے پاکستان کے بارے میں مکروہ عزائم کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکتے رہے، یوں افغان جہاد بھی ہمارے ایٹمی پروگرام میں کسی نہ کسی حد تک حصہ دار بنا، جنرل ضیا الحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، ان کے دور میں ایٹم بم تیار ہوچکا تھا، نواز شریف کے دور میں اس کا دھماکہ ہوا 11 مئی 1998 میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی کو بلوچستان میں چاغی کے مقام پر بھارت کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے جواب دیا گیا۔
،ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل محمدضیاء الحق شہید نے تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے،مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں نیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی ان کو عطا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے. اللہ ان کی قبر نور سے بھر دے، آمین