فواد چودھری کے ساتھ ایک نشست!!!!
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اتوار کو لاہور آنا تھا بتانے لگے بہت دن ہوئے ہیں لاہور میں صحافیوں سے پرسکون ماحول میں گفتگو نہیں ہو سکی۔ ہر وقت ایک سے دوسرے معاملے میں الجھ جاتے ہیں کوئی بندوبست کریں کہ کچھ وقت ایسا میسر آئے کہ اچھے ماحول میں بات چیت ہو سکے۔ فواد چودھری سے میرا ذاتی تعلق ہے، ملکی حالات پر ہم اچھی خاصی گفتگو کرتے ہیں، اختلاف رائے بھی ہوتا ہے لیکن فواد ہمیشہ دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ آپ ان کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ میڈیا میں بھی بات گھمانے کے بجائے واضح انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم وزیر کی حیثیت سے ان کی گفتگو سے افواہیں دم توڑ سکتی ہیں ساتھ ہی وہ حکومتی اقدامات میڈیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ فواد چودھری کی خواہش پر میں نے میڈیا کی اہم شخصیات سے رابطہ کر کے انہیں اتوار کے روز تمام مصروفیات ترک کرنے کی درخواست کی۔ میں شکر گذار ہوں کہ جن دوستوں کو دعوت دی وہ اتوار کے روز بھی تشریف لائے۔ مجیب الرحمٰن شامی، سہیل وڑائچ، سید ارشاد احمد عارف، سلیم بخاری، سجاد میر، سلمان غنی، حفیظ اللہ نیازی، چودھری غلام حسین، عمران یعقوب، شفیق اعوان، منصور علی خان، سمیت شہر کے نمایاں تجزیہ کار تشریف لائے۔ پنجاب حکومت کے مشیر اطلاعات احسان خاور بھی گفتگو میں شریک تھے۔ فواد چودھری مقررہ وقت پر پہنچے انہوں نے مختلف معاملات پر حکومتی اقدامات پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو کی۔ سلیم بخاری کا انداز یہاں بھی وہی تھا جیسے آپ انہیں ٹیلیویژن پر سنتے ہیں۔ سید ارشاد احمد عارف مخصوص دھیمے انداز میں سخت سوالات بھی کرتے رہے۔ فواد چودھری نے ہر سوال تحمل مزاجی سے سنا اور تفصیل سے جواب بھی دیا، بعض سوالات پر انہوں نے اتفاق کیا اور حکومت کی ناکامی کو تسلیم کیا جب کہ بعض سوالات پر انہوں نے اختلاف کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ سلمان غنی نے سب سے زیادہ سوال کیے، شاید وہ سجاد میر کے ساتھ بیٹھے تھے تو میر صاحب کے حصے کے سوال بھی سلمان غنی ہی کرتے رہے۔ جبکہ مجیب الرحمٰن شامی اپنے مخصوص انداز میں چبھتے ہوئے سوالات کرتے رہے۔ چودھری غلام حسین جو پوچھنا چاہتے ہیں انہیں کوئی روک نہیں سکتا جبکہ وہ کسی اور کے سوال کا رخ موڑنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں پھر موقع ملنے پر مہمان کو وہی سوال یاد بھی کرواتے ہیں۔ منصور علی خان نے احتساب کے عمل پر سوال کیا تو فواد چودھری نے تسلیم کیا کہ احتساب کے معاملے میں جو نتیجہ سامنے آنا چاہیے تھا وہ نہیں آ سکا لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایسے مقدمات میں تاخیر کی وجوہات بھی بیان کیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات نے افغانستان کے مسئلے پر حقائق میڈیا کے سامنے رکھے، حکومت کے اقدامات پر روشنی ڈالی اور افغانستان کو نظر انداز کیے جانے پر ممکنہ طور پر پیدا ہونے خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ فواد چودھری کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ افغانستان ہی ہے اور اگر دنیا انہیں نظر انداز کرتی رہی تو چھ ماہ تک دنیا کا رویہ یہی رہا تو پھر افغانستان کی وجہ سے جو مسائل سامنے آئیں گے ان سے صرف پاکستان ہی نہیں سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ فواد کہتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں ہم پر ڈبل گیم کا الزم لگایا جاتا ہے لیکن اصل میں پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم ہوئی ہے۔ وہ لوگ افغانستان پر حکومت کرتے رہے جنہیں پاکستان کی افغانستان کے لیے خدمات کا احساس ہی نہیں تھا۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی اور جو کچھ بھارت وہاں بیٹھ کر کرتا رہا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتی رہی، بی ایل اے والے وہاں پہنچ گئے۔ افغانستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ایران کا کردار قابل تعریف ہے۔ ایران بہت مدد کر رہا ہے۔ دنیا نے اگر افغانستان کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر دنیا کو بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات کہتے ہیں کہ اپوزیشن غیر ضرورری ایشوز پر واویلا کرنے کی بجائے انتخابی اصلاحات سمیت قومی ایشوز پر توجہ دے،حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ایسی انتخابی اصلاحات لائی جائیں جس کے بعد جو بھی الیکشن ہو وہ سب کے لئے قابل قبول ہوں۔ ملکی بہتری کے لیے کئی اداروں میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ نیب آرڈیننس کے حوالے سے آئندہ ہفتے اپوزیشن سے رابطہ کیا جائے گا، اپوزیشن اگر اس میں کوئی ترمیم تجویزکرتی ہے جس پرحکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوگا تواس کو بل میں شامل کر لیاجائے گا۔ جہاں ضرورت ہو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی روایت کو فروغ دینا چاہیے۔ ایسے معاملات پر میڈیا میں ہر وقت بحث ہوتی ہے جن کا عام آدمی کو فائدہ نہیں ہے۔ روزانہ کی اس بحث میں قوم کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ حکومت صحت کارڈ پروگرام سمیت تین بڑے پروگرام لا رہی ہے جس سے عوام براہ راست مستفید ہوں گے۔ پنجاب میں صحت کارڈ ہر فیملی کے پاس موجود ہوگا جس سے ہر فیملی ساڑھے سات لاکھ روپے لاگت تک اپنا علاج کروا سکے گی۔ جب فواد چودھری نے یہ بات کی تو چودھری غلام حسین نے کہا یعنی پہلے بیمار ہوئیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا سی پیک منصوبے سے متعلق منفی پراپیگنڈا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبہ کامیابی سے چل رہاہے جس میں شامل گوادر پورٹ ، رابطہ سڑکیں بننے کے بعد اگلے مرحلہ میں انڈسٹری لگانے کیلئے نجی شعبہ کو بھی قائل کیا جائے گا۔ کامیابی سے مکمل ہونے والے مراحل دونوں ممالک میں حکومتی سطح پر معاملات طے کیے جاتے تھے اب سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے بغیر کوئی ایسی جماعت نہیں ہو گی جو آٹھ سو سے نو سو سیٹوں پر اپنے امیدوار لا سکے۔ مسلم لیگ نون چار سو جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تین سو سے زیادہ امیدوار نہیں ہوتے۔ ان دونوں جماعتوں کے پاس امیدواروں کی کمی کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ ہماری حکومت نے ہمیشہ مضبوط اور مستحکم افغانستان کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا کیا، اس وقت بھی ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں استحکام آئے اور وہاں نئے لوگوں کی شمولیت کے ساتھ وسیع البنیاد حکومت بنے۔ ہم عالمی قوتوں سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں انکا کہنا تھا کہ افغانستان میں عدم استحکام پورے خطے میں منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے اور ایسی کسی صورت حال میں پاکستان کا نقصان سب سے زیادہ ہونے کا احتمال ہے۔ نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے اپوزیشن کو دعوت ہے لیکن ان کا مطالبہ ایسا ہے کہ اگر وہ مان لیا جائے تو ترمیم ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔
فواد چودھری سے مسلسل سوالات ہوتے رہے اور وہ جواب دیتے رہے۔ بلدیاتی انتخابات کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے اس حوالے سے بھی انہوں نے واضح الفاظ میں خیالات کا اظہار کیا۔ یہ ایک تعمیری نشست تھی میں ایک مرتبہ پھر شرکاء کا مشکور ہوں جنہوں نے اتوار کے روز وقت نکالا، کئی نام یقینا رہ گئے ہیں اور کیں ترتیب میں غلطی رہ گئی ہے تو اس کی پیشگی معذرت!!!
زندہ رہے تو پھر ملیں گے۔