پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن،ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور پی پی پی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی حکومت کے خاتمے کی شروعات ہو چکیں، بات اب ان ہائوس تبدیلی سے آگے بڑھ چکی ہے ، ملک میں حقیقی تبدیلی اب آئے گی اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کا جانا ٹھہر چکا ۔ غربت اور مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ آج غریب کے پاس سر چھپانے کو چھت نہیں اور کسان دووقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ حکومت کے خلاف تحریک چل پڑی، اب لاہور ، کراچی ، پشاور اور ملتان میں بھی جلسے ہوں گے ۔ عمران خان کو این آر او نہیں ملے گا ۔ معیشت کی حالت بد ترین ہو چکی، تاریخ میں پہلی بار معیشت منفی پوزیشن میں آئی ہے ۔ کشمیر کا سودا کرنے والے حکمران اب مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ بہت کامیاب رہا مگر حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ عوام کا سڑکوں پر نکلنا مہنگائی ، بے روز گاری اور امن وامان کی بگڑتی صورتحال کا ردعمل ہے، کسی مفاد پرست کی حمایت نہیں ۔ وطن عزیز کے باشعور عوام کبھی ماضی میںبھی کسی حکمران کے خلاف بلاجواز احتجاج کا حصہ نہیں بنے اور نہ اب بنیں گے ۔ زیر عتاب سیاست دان اگر اپنے مفاد کے تحفظ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں تو عوام کو بھی اپنا مستقبل عزیز ہے ۔عوام میں اتنا شعور پیدا ہو چکا ہے کہ اب وہ کسی بہکاوے میں نہیں آئیں گے چنانچہ پی ڈی ایم اگر عوام کو درپیش گھمبیر مسائل اور قومی سلامتی کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش اصلاح احوال کیلئے احتجاجی تحریک چلائے گی تو عوام کا مائنڈ سیٹ مثبت ہوگا ورنہ آزماے ہوئوں کو آزمانے کا وقت گزرچکا ۔جہاں تک حکمران جماعت کا پی ڈی ایم کی طرف سے احتجاجی تحریک چلانے پر طنز ومزاح کا تعلق ہے، یہ طرز عمل بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ فی الحال حکومت کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا مگر احتجاجی تحریک اگر شدت اختیار کر گئی تو حالات قابوسے باہر بھی ہو سکتے ہیں چنانچہ حکومت کے وزیروں ، مشیروں اور ترجمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ احتجاجی تحریک سے نجات چاہتے ہیں تو عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دیں ، عوام کیلئے روزگارکے مواقع پیدا کریں ،مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرنے پر بھر پور توجہ دیں، امن وامان کی صورتحال بہتر بنائیں اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر اہم ایشوز پر قومی وقار کوملحوظ خاطر رکھ کر ان مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیںمزید یہ کہ ملک میں جاری احتساب کے عمل انتقام سے پاک بنائیں ۔ حکمرانوں نے اگر ان مسائل پر توجہ دی ہوتی تو عوام احتجاج کرنے والوں کی آواز پر لبیک نہ کہتے ۔ وزیروں ، مشیروں اور ترجمانوں کا کام اپوزیشن کے جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کاتخمینہ لگانا اورسنجیدہ صورتحال پربھی طنز ومزاح پر مبنی بیانات دینانہیں بلکہ عوام کو درپیش وہ مسائل حل کرنا ہے، جن کیلئے عوام نے انہیں ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میںبھیجا ہے۔ عوام اگر قومی دولت لوٹنے والوں کو این آر او دینے والوں کے حق میں نہیں تو ان کی حمایت ایسے حکمرانوں کوبھی حاصل نہیں ہوسکے گی جن کے اقتدار میں آنے سے انکے چہرے تو نکھر تے جا رہے ہیں مگر فاقوں سے بھوکے مرتے عوام جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے سے بھی عاجزہیں۔ حکمرانوں اورپی ڈی ایم والوں کو چاہیے کہ سیاست کوعبادت سمجھ کر کریں تاکہ عوام کیلئے مفید ثابت ہو۔ اپنے اپنے مفادات کیلئے سیاست نہ کریںکہ عوام کے نزدیک یہ سیاست نہیں، اقتدار کی ہوس ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ حکمران کشمیر کا سودا کرنے کے بعد اب مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں ،حکمرانوں کو چاہیے کہ اپوزیشن کے اس الزام کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں۔ عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لیں کہ اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف بر صغیر کی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا ہے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ محمد علی جناح کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دے چکے ہیں ۔پاکستان اس مسئلہ کا اہم فریق ہے۔ خطے میں اس بڑے تنازعہ پر نہ صرف اب تک تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور بھارت سرکار کی ہٹ دھرمی کے باعث اب بھی جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اپوزیشن کا یہ کہنا کہ بات اب ان ہائوس تبدیلی سے آگے بڑھ چکی ہے، یہ موقف سیاست میں انتہا پسندی کے مترادف ہے۔ سیاست میں مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ،ان ہائوس تبد یلی ایک آئینی اور قانونی راستہ ہے جو کسی بھی وقت اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ حالات کے ستائے عوام کے پاس جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کیلئے وقت نہیں۔ عوام کے مسائل روٹی ، کپڑا اور مکان کی دستیابی سمیت ،ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے اگر اپوزیشن چاہتی ہے کہ عوام احتجاجی تحریک میں انکی حمایت کریں تو انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑنے کے بجائے عوام کے مسائل کو اجا گر کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے حکمرانوں پر دبائو بڑھانا چاہیے کہ وہ اپنے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ حکمرانوں کا محض یہ گردان کرتے چلے جانا کہ ہمیں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کا ادراک ہے، ڈنگ ٹپائو پالیسی ہی کہا جا سکتا ہے، جسے عوام بخوبی سمجھتے ہیں۔
جب وزیر اعظم خود تسلیم کر چکے ہیں کہ جلسے کرنا اور جلوس نکالنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس حوالے سے گوجرانوالہ کے جلسے سے انعقاد سے قبل باقاعدہ تحریری معاہدہ ہو چکا تھا تو پھر جلسے میں جانے سے روکنے کیلئے راستے بند کرنا اور گرفتاریاں چہ معنی دارد؟ یہ رویہ غیر قانونی اور غیری جمہوری ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ گذشتہ روز شاہراہوں پر کنٹینر کھڑے کر کے راستے بند کرنے کا حکومتی فیصلہ غیر جمہوری اور غیر قانونی تھا جس کے خلاف عدالت نے بھی فیصلہ دیا ۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ مستقبل میں ایسے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے اجتناب کریں ۔ اپوزیشن کو احتجاج کے دوران قانون کے تحت جو سہولتیں حاصل ہیں ،ان میں رکاوٹ ڈالنا مناسب نہیں۔حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024