اور کچھ ایسے بھی تھے مہرباں
(گزشتہ سے پیوستہ)
جمشید نسروانجی کو علم و ادب سے بہت دلچسپی تھی وہ اخبارات اور رسائل میں کالم بھی لکھتے تھے اور کراچی کے شہری نظام کے متعلق '' کراچی میونسپلٹی '' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ مطالعے کے بھی شوقین تھے۔ اس سب کے باوجود جمشید نسروانجی شادی نہیں کر سکے اور تنہا زندگی گزار دی۔ ان کے شادی نہ ہونے کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کرنا چاہتے تھے جن کی غربت اور مناسب شکل و صورت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے لیکن جب جمشید ایسی لڑکیوں کے والدین کو رشتے کے لیے پیغام بھیجتے تھے تو ان کے والدین یہ کہہ کر رشتے سے انکار کرتے تھے کہ جمشید صاحب بھگوان کے اوتار ہیں اور وہ اونچے مقام و مرتبے کے مالک ہیں۔ ایک بار ایک خاتون اپنی حاملہ بیٹی کا حمل ساقط کرانے کے لیے جمشید کے پاس آئی کہ وہ ان کی مدد کرے۔ جمشید نے لڑکی کی ماں کو پیش کش کی کہ میں اس لڑکی کو اپنی بیوی بنانے اور اس بچے کا باپ بننے کے لیئے بھی تیار ہوں لیکن بات وہی ہوئی کہ خاتون نے کہا کہ آپ بھگوان کے اوتار ہیں آپ سے ہم کیسے رشتہ کر سکتے ہیں۔ جمشید نسروانجی صاحب سے کسی قریبی دوست نے سوال کیا کہ کیا آپ کو کبھی کسی لڑکی سے محبت نہیں ہوئی کہ جس سے آپ شادی کرتے جمشید نے کہا کہ بالکل ایک لڑکی سے جوانی میں محبت ہوئی مگر میں نے شرم اور حیا کی وجہ سے ان کے والدین کو رشتے کے لیے پیغام نہیں بھیجا۔ جس کی وجہ سے ہماری شادی نہیں ہو سکی۔ لڑکی کی شادی کے بعد ان کے والدین کے گھر جانے کا اتفاق ہوا اور وہ لڑکی بھی اس وقت اپنے والدین کے گھر میں موجود تھی۔ لڑکی کی ماں نے جمشید نسروانجی صاحب سے کہا کہ میں آپ کو اپنا بیٹا سمجھتی ہوں آپ کو اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتائیں میں آپ کی طرف سے اس کے والدین کے پاس رشتے کا پیغام لے کر جائوں۔ جمشید نے کہا کہ مجھے صرف آپ کی بیٹی سے محبت ہوئی تھی اور اب بھی ہے بلکہ زندگی بھر رہے گی مگر میں نے شرم کی وجہ سے آپ لوگوں سے رشتے کی بات نہیں کی تھی یہ بات سنتے ہی وہ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ جمشید ماں سے لڑکی کے رونے کی وجہ پوچھا تو خاتون نے بتایا کہ ہماری بیٹی کو بھی آپ سے بیحد محبت تھی مگر ہم نے آپ سے رشتے کی بات اس لیئے نہیں کی تھی کہ آپ اونچے مقام و مرتبے کے مالک اور بھگوان کے اوتار ہیں۔ جمشید نسروانجی صاحب کا 8 اگست 1952 میں انتقال ہوا۔ ان کی موت کا دکھ کراچی شہر کے تمام شہریوں کو ہوا ان کی میت کا آخری دیدار کرنے کے لئے پورا شہر امڈ آیا تھا جن میں مرد و خواتین سبھی شامل تھے۔ عوام سے ان کی محبت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ برٹش گورنمنٹ نے ان کو ان کی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر نائٹ ہڈ کا خطاب دینا چاہا لیکن جمشید نے یہ خطاب لینے سے اس لیئے انکار کر دیا کہ اس خطاب کی وجہ سے عوام الناس مجھ سے خود کو دور اور الگ محسوس کریں گے جبکہ میں عوام کا غلام ہوں اور اس لیئے میں یہ خطاب قبول نہیں کر سکتا۔
(جاری ہے)