کرے کوئی بھرے کوئی
اَس سے بڑھ کر اور کیا نا انصافی ہو گی کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔بدقسمتی سے پاکستانی عوام کو صبح و شام کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔آج کا موضوع اُن سوسائٹیزکے بارے میں ہے جہاں سوئی گیس اور بجلی کے نئے کنکشن دینے قطعی بند ہیں۔یہی نہیں بلکہ وہ سوسائٹیز اپنے اپنے علاقوں کے ترقیاتی اداروں سیـ ’’ بلیک لِسٹ ‘‘ بھی کر دی گئی ہیں۔ ( جیسے سی ڈی اے، ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ )۔اب تو انٹر نیٹ پر بھی ایسی تمام سوسائٹیز کی فہرست موجود ہیں جو بوجوہ بلیک لسٹ ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں اگر کسی تعمیراتی قا نون کی خلاف ورزی ہوئی بھی ہے تو وہ اُس وقت کے سوسائٹی کے ذمہ دار مجاز ا نتظامیہ نے کی تھیں۔حکومت اگر کوئی ایکشن لے تو اِن کے اور ان ترقیاتی اداروں کے خلاف لے جن کے افسران نے ملی بھگت سے ’’ غیر قانونی کو قانونی ‘‘ کر کے صریحاََ بد عنوانی کی تھی نہ کہ وہاں کے رہائشیوں اور پلاٹ مالکوں کے خلاف !! در اصل پچھلے دنوں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم میرے اسکول کے زمانے کے ایک دوست نے اسلام آباد کی کسی معروف سوسائٹی میں پلاٹ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ پانی، بجلی، گیس اور دیگر مسائل سے پاک جگہ کا انتخاب کروں ۔میں اس سلسلے میں مختلف سوسائٹیز کے دفاتر میں معلومات حاصل کرنے گیا۔اس کے بعد پراپرٹی ڈیلرز سے بھی ملا۔یہاں مجھ پر انکشاف ہوا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی اکثر سوسائٹیز بلیک لسٹ ہیں۔ اِس وجہ سے یہاں پر تعمیراتی کام نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ گیس بجلی کا کنکشن فی الحال بند ہے۔اگر کوئی بلڈر مکان بنا کر مارکیٹ میں فروخت کے لئے بناتا بھی ہے تو اول بغیر بنیادی سہولیات کے کوئی خریدار نہیں ملتا۔دوسر ے یہ کہ اگر کوئی سرمایہ کاری کے لئے خریدتا ہے تو اُس کا آگے فروخت ہونا مشکل ہے۔دور کیوں جائیے میری ایک عزیزہ نے اسلام آباد کی ایک ایسی ہی سوسائٹی میں تقریباََ چار سال قبل خود اپنی فیملی کی رہائش کے لئے پلاٹ خریدا۔اچھی خاصی رقم خرچ کر کے ایک معروف آرکیٹیکٹ سے اپنی مرضی کا نقشہ بنوایا ۔ جب تعمیر شروع کرنے کا مرحلہ آیا تو ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ صاحب !! یہ سوسائٹی بلیک لسٹ ہے یہاں کوئی گیس بجلی کا کنکشن نہیں ملنے والا … سالوں اُن کا پلاٹ پڑا رہا … تب انہوں نے ایک پراپرٹی ایڈوائزر سے رابطہ کیا۔اب اللہ اللہ کر کے پچھلے ہفتے فروخت ہوا ہے۔ بہرحال … میں نے جب اُن پرا پرٹی ایڈوائزر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ یہ سوسائٹیز بلیک لسٹ کیوں ہوئیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ جب کسی نئی سوسائٹی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو سوسائٹی کے کار پرداز اس کا مکمل ’’لے آئوٹ ‘‘ بنا کر متعلقہ حکومتی ادارے سے اجازت نامہ ( این او سی ) حاصل کرتے ہیں۔ حکومتی شرائط اور قواعد و ضوابط کے مطابق نئی سوسائٹی کو اپنے نقشے میں اسکول ، پارک، کھیل کے میدان، قبرستان وغیرہ کہ جگہ مختص کرنا لازم ہے۔جب سوسائٹی کو اجازت نامہ مل جاتا ہے تو بعد میں وہ پارک، قبرستان وغیرہ کو بھی پلاٹ بنا کر بیچ دیتے ہیں۔ایسا کرنا متعلقہ محکمے کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔پھر کچھ وقت گزرتا ہے … بات کھُلتی ہے … حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے اور سوسائٹی کے کرتا دھرتا لوگوں کی کیئے کی سز ا، سوسائٹی کے بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں وہاں کے مکینوں اور پلاٹ لینے والوں کو ملتی ہے۔یہ کوئی مذاق ہے کہ پارک ، کھیل کے میدان اور قبرستان پر بھی پلاٹ بنا دئیے جائیں … پھر سوسائٹی کی حدود میں مین روڈوں پر مکانات کو کمرشل کرنا پھر مکانات کو گرا کر کثیر المنزلہ شاپنگ سینٹر بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں !! آپ جب ان شاپنگ سینٹر کے مالکان سے پوچھیں تو وہ اپنے کاغذات دکھا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ہم نے تو پوری پوری قانونی کارروائی کرتے ہوئے یہ عمارت بنائی ہے۔اب اس کہانی میں الف تا ے کون کون سے محکمے ملوث ہیں؟ کس نے ایمان کتنے میں بیچا یہ وہ کیوں بتائیں !! لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا: یہ کہ کرپشن کسی نے کی اور سزا کسی اور کو مل رہی ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان سوسائٹیز پر گیس بجلی کے نئے کنکشن بند کرنے والے بھی وہی ہیں جنہوں نے اس کرپشن کی تمام قانونی شقیں پوری کی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایک ایک کیس کی فرداَ فرداََ پوچھ تاچھ ہوتی کہ ’’ غیر قانونی ‘‘ کو قانونی کس مجاز افسر نے کیا؟ اس کا کھوج لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔یا وہ حاضر سروس ہو گا یا ریٹائر۔ اگر سروس میں ہوا تو اُس پر بدعنوانی کا کیس بنایا جائے اور تنخواہ روک دی جائے۔اگر ریٹائر ہو گیا ہو تو اس کی انکوائری کرائی جائے۔الزام درست ہونے پر اس کی سزا کے طور پر جائیدادیں ضبط اور پنشن بند کر دی جائے۔اگر فوت ہو چکا ہے اور الزام صحیح ثابت ہو تو اس پر بھی کوئی ایکشن لینا چاہیئے تا کہ آئندہ کوئی سرکاری اہل کار اس قسم کی ہیرا پھیرا نہ کر سکے ۔ میں نے جب تعمیراتی شعبے کے افراد سے اس معاملے پر گفتگو کی تو علم ہوا کہ تعمیراتی شعبے کو سہولیات دینے کے حکومتی دعو ے بے بنیاد ہیں۔جب ان سوسائٹیز کو ترقیاتی ادارے ’’ این او سی ‘‘ ہی نہیں دے رہے تو سرمایہ کاری کے لئے بلڈر کس کے لئے مکانات بنائیں گے؟ این او سی کے بغیر صحیح قیمت کیسے ملے گی؟ اور اگر وہ عوام کے پلاٹ ہیں تو بغیر بجلی اور گیس کے کوئی گھر کیسے بنائے؟ یوں بلڈرز اور پراپرٹی کے شعبے جمود کا شکار ہیں۔تین سال گزرنے کے بعد بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ حکومت صرف لفظی گولہ باری میں مصروف ہے جب کہ یہ مسائل ویسے ہی منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔یہ تو پراپرٹی ڈیلرز اور بلڈرز کی بات تھی اب رہے بے چارے سوسائٹی ممبران تو اُن کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہے۔میں نے بلڈرز اور پراپرٹی ایڈوائزر سے پوچھا کہ پھر ہونا کیا چاہیئے؟ انہوں نے تجویز دی کہ ایسی تمام جگہیں جہاں 50 فی صد سے زائد مکانات بن چکے ہیں وہاں بجلی اور گیس کی سہولت فراہم کی جائے۔نیز یہ بھی کہ ان سوسائٹیز پر لگائے گئے ہر قسم کے حکومتی اور عدالتی ’’ بین ‘‘ ختم کیئے جا ئیں تا کہ تعمیراتی صنعت کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔