آج سکینہ نے کتنے عرصہ بعد اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر وہی ہار نکالا تھا جو اب تک اُس کی کتنی ہی نسلوں کو منتقل ہوتا چلا آیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گول پھولوں کے بیچ میں ہرے نگینے، وسط میں ایک بڑا پھول جس کی ایک پتی باقی پتیوں سے نمایاں تھی جیسے اس کے پانے وجود کی نشاندہی کر رہی ہو۔ وہ ہار اس کی اماں نے بھی اپنی شادی پر پہنا تھا اور سکینہ کی شادی کے موقع پر جب اماں سُنار کے پاس جا رہی تھیں تو جاتے جاتے اس سے پوچھا تھا ’’تمہیں کیسا ڈیزائن پسند ہے‘‘ اور سکینہ نے ایک کاغذ پر اوپر نیچے دائرے، نگینے، لڑیاں، پھول بنا دئیے تھے اور ایک پتی نمایاں تھی۔ سُنار نے جوڑ توڑ کر کے نیا ڈیزائن تیار کر دیا۔ شادی ہوئی۔ وہ سج گئی۔ شادی پر بہت سے مہمانوں (جن کو وہ جانتی بھی نہیں تھی) نے غور سے اس کی گردن کو ، کانوں کو بازوئوں کو دیکھا۔ وہ اپنے وجود پر خاموشی سے ٹٹولتی نگاہوں کی چبھن محسوس کر سکتی تھی۔ ’’کتنا بھاری ہو گا‘‘؟ ’’کیا کان نیچے کو لٹک رہے ہیں؟ ’’روشنی کے ایک خاص زاویے سے دیکھو تو پتہ چلے گا کہ چمک اصلی ہے یا نہیں۔‘‘ لیکن وہ بے خیالی میں بس اس نمایاں پتی کو اپنی انگلیوں سے ٹٹولے جا رہی تھی۔ کیا وہ اپنی جگہ پر ہے؟ کہیں بکھر تو نہیں گئی؟ اُف پک کر کندن بنتا، ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کرتا، بھورے بدن پر چمکتا سونا آج سکینہ نے وہی سوال اپنی بیٹی سے کیا تھا۔ تمہیں کیسا ڈیزائن پسند ہے؟ اور اس نے قریب قریب وہی ڈیزائن بتایا جو ہر دلہن کے گلے میں نظر آتا ہے۔ اوپر نیچے دائرے، نگینے ، لڑیں ، پھول، لیکن وہی پھر وہی ایک نمایاں پھول پتی…وہی پتی جس پر دلہن کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے گاہے بگاہے آتے انجان مہمانوں میں سے کسی کی نظر نہیں پڑتی۔ وہی پتی جسے سب بے وقعت سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے ہار کی قیمت کا اندازہ نہیں لگ سکتا۔ وہی پتی جو دوپٹے کی شِکنوں میں کہیں چھپ جاتی ہے لیکن وہی پھول پتی جسے مجمع میں بیٹھی سجی دھجی دلہن انجانے میں کھو دینے کے ڈر سے بار بار ٹٹولتی رہتی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024