ایران اور سعودیہ کے دورے ،جنگ روکنے کی اچھی کوشش ہے ،اللہ انھیں نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔ سعودی عرب میں اس وقت کافی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔سعودی کابینہ نے حج، عمرہ، وزٹ اور ٹرانزٹ ویزہ کی فیسوں کا نیا شیڈول جاری کیا ہے جس میں ہر قسم کے ویزے کی فیس 300 ریال رکھی گئی ہے۔گذشتہ تین برسوں سے دوسرا عمرہ کرنے کے خواہش مند افراد 2000 ریال فیس ادا کر رہے تھے، جسے کابینہ نے اپنے حالیہ فیصلے میں منسوخ کر دیا ہے۔حج اور عمرہ وزٹ ترتیب دینے والوں کو اپنے صارفین کو فراہم کردہ پیکیج میں صحت کی انشورنس، ٹرانسپورٹ کا انتظام اور ان کے ٹوکن ادائیگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد سعودی عرب میں روبعمل ویژن 2030 ء کے تحت 2030 ء تک ایک سال کے اندر 30 ملین متعمرین کو عمرہ کی سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اللہ کے مہمانوں کے لئے سعودی عرب کی میزبانی سے استفادہ کر سکیں۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جنہیں سعودیہ نے یہ سہولت فراہم کی ہے حالانکہ پاکستان سے ہر سال لاکھوں افراد حج اور عمرے کیلئے حجاز مقدس کا رخ کرتے ہیں۔سعودی سفیر اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہل پاکستان کو بھی یہ سہولت میسر آسکے۔اسکے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو سالانہ تین ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے تیل کی فراہمی یکم جولائی 2019 سے شروع ہو چکی ہے۔یہ وہ تیل ہے جس کیلئے معاہدہ گزشتہ برس اکتوبر میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہوا تھا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین برس تک ماہانہ ساڑھے 27 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ فراہم کیا جائے گا۔تیل کی موخر ادائیگی پر فراہمی شروع کرنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب پاکستان کو مقامی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافے اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہے۔
ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کافی کشیدہ ہیں لیکن مسئلہ پیچیدہ ہونے کے باوجود حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کی میزبانی کی ہے اور ایک مرتبہ پھر دونوں برادر ممالک کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ پر امن انداز سے اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ صرف اس خطے کو نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کو متاثر کریگا۔ کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، کئی ممالک کے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور یوں غربت میں بڑھے گی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک روشن خیال لیڈر کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں اور ایران بھی اپنے آپ کو بطوراعتدال پسند ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں جنگ سے دونوں مسلم ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یمن میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ جاری ہے۔ اس مسئلے کا حل نہیں نکل رہا، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ اس ملک کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا اور اب حال ہی میں ترکی کی جانب سے شام میں کرد ملیشیا پر حملے کی صورت میں سعودی عرب جنگ کا بڑھاوا دیکھ رہا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں پھیل سکتا ہے۔ اس لیے اگر دونوں ممالک میں امن قائم ہو جائے تو یہ ان کیلئے بہت ہی اچھا ہے۔ایران سے بھی ہمیں گیس حاصل کر کے عوام کو سہولت پہنچانی چاہیے۔اسکے علاوہ ایران سے ہم سرحدی علاقے کیلئے بجلی بھی لیے سکتے ہیں۔اس سے ہماری معیشت کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔
’’شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان ‘‘
شاہی جوڑوں کی پاکستان آمدکی کہانی کافی طویل ہے۔پاکستان کی ثقافت اور یہاں کے باسیوں کی محبت انھیں کھینچ لاتی ہے۔شہزادی ڈیانا نے پاکستان کے 3 دورے کیے اور انکے ہر دورے کی اپنی انفرادیت تھی۔اس دورے سے شہزادی ڈیانا کو عالمی سطح پر خوب پزیرائی ملی اور وہ عوامی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔اب برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ ڈچزآف کیمبرج کیٹ مڈلٹن کی پاکستان آمد ، برطانیہ اور پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم بنیادوں پر استوارکرنے کا سبب بنے گی۔پاکستان اور برطانیہ کے باہمی خوشگوار تعلقات تاریخی حیثیت و اہمیت کے حامل ہیں۔ شہزادہ ولیم ملکہ برطانیہ کے پوتے، شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے بڑے بیٹے ہیں۔ شاہی جوڑے کی آمد پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ اس دورے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مثبت اور پر امن چہرہ ابھر کر سامنے آئیگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ملکہ الزبتھ دوم نے 1961میں پاکستان کا دورہ کیا تھا انکے استقبال کیلئے عوام کا جم غفیر سڑکوں پر امنڈ آیا تھا۔ وہ دوبارہ 1997میں پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کیلئے آئیں۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے ساتھ مستحکم تعلقات سے فایدہ اٹھا کر ہمیں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مراعات لینی چاہیں۔بچوں کیلئے سکالرشپ کے علاوہ سستی رہائشوں کیلئے بھی ان سے بات کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہو سکیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38