جمعۃ المبارک‘ 18؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 18 ؍ اکتوبر 2019 ء
کشمیری سیبوں پر آزادی، پاکستان اور عمران خان زندہ باد کے نعرے
کشمیریوں کی طرف سے بھارت کو ہر محاذ پر واضح پیغام جا رہا ہے کہ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ جلسہ ہو جلوس ہو، مردوں کے مظاہرے ہوں یا عورتوں کے اجتماعات باقی سب کی بات چھوڑیں بچے تک کھیلتے ہوئے یا بھارتی فوجی کو دیکھ کر پاکستان زندہ باد اور آزادی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے گلیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ان تمام نعروں کا غصہ بھارتی فوجی بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کو ٹارچر سیلوں میں قید کر کے اذیت دے کر نکالتی ہے مگر وہ کہتے ہیں
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے
ہم اپنی وضح کیوں بدلیں
سو کشمیری بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے موقع تلاش کرتے ہیں جب انہیں بھارت کے خلاف نعرے لگانے کا موقع ملے۔ بھارتی فوج اور حکومت کو زچ کرنے کا موقع ملے۔ اب کشمیر میں سیبوں کا سیزن ہے۔ باغات سیبوں سے بھرے ہیں یہاں سے جو سیب اتار کر بھارت لے جائے گئے ان میں ہر سیب پر پاکستان زندہ باد یا عمران خان زندہ باد اور ہم کیا چاہتے ہیں آزدی کے نعرے درج تھے۔ اب معلوم نہیں بھارتیوں نے یہ سیب کھانے ہیں یا ان کا مربہ بنانا ہے۔ مگر ان پر لکھے یہ نعرے وہ کیسے ہضم کر سکیں گے۔ اب وہ مربہ کھائیں یا جیم ان کو بہرحال بدہضمی ہی ہو گی۔ اس وقت کشمیر کے در و دیوار بھارت مردہ باد اور گو انڈیا گو کے نعرے سے سجے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب انڈیا والوں کو دکھائی نہیں دیتا نہ ان نعروں کی گونج سُنائی دیتی ہے۔ اس لیے اب اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ بھارتی حکومت کے کانوں اور آنکھوں کا شافی و کافی علاج کرائے۔
٭٭٭٭
ایل پی جی والے سکول رکشہ اور ویگنیں بند کرنے کا فیصلہ
خدا جانے یہ فیصلے کون کر رہا ہے۔ ابھی تک تاجروں اور ڈاکٹروں کی ہڑتالوں سے جان نہیں چھوٹ رہی اب اگر رکشہ اور ویگن والے بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تو کیا ہو گا۔ ایسے ہنگامہ آرانہ قسم کے فیصلے یکے بعد دیگرے نہیں کئے جاتے آہستہ آہستہ کئے جاتے ہیں تاکہ ان سے متاثر افراد کو یکجا ہو کر ہنگامے کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ ڈاکٹر تاجر رکشہ ویگن والوں کے ساتھ اب اطلاع ہے کہ ایک ہزار یوٹیلٹی سٹور اور کئی ادارے یا محکمے بھی بند ہو رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ حکومت کے خلاف یہ کھچڑی کون پکا رہا ہے۔ خود وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نوکریوں کے بارے میں منفی بیان دے کر اب اس پر پانی ڈالنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ بے روزگاروں کی فوج ظفر موج تیار ہے۔ پڑھے لکھے ان پڑھ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سب کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ کوئی اس طرف بھی توجہ دے ورنہ یہ سب مولانا کے مارچ کی طرف متوجہ ہو گئے تو پھر کیا ہو گا۔ اس کا تو سوچ کر ہی پتہ پانی پانی ہو جاتا ہے۔ اس وقت عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے اور حکومت ان سے روٹی بھی چھیننے کے چکر میں لگ رہی ہے۔ یہ لینا دینا کہیں مہنگا نہ پڑ جائے۔ اس لیے فی الحال کاروبار مٹائو نہیں کاروبار بڑھائو کا ماٹو ہونا چاہئے ۔ کسی کو دو نمبری کی اجازت نہیں دیں۔ کسی بے ایمانی کے ذمہ دار اور قصور وار کو فوری سزا دے کر ہم معاملات بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس طرح عوام بھی خوش ہوں گے اور حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا۔
٭٭٭٭
ٹک ٹاک کی بندش کے لیے درخواست کی سماعت بنچ کی عدم دستیابی پر ملتوی
ٹک ٹاک نامی یہ بلا اس طرح چہار دانگ مقبول ہو گئی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اس کا شکار ہے۔ کیا لڑکا کیا لڑکی اور تو اور بڑے میاں اور بی بی جی تک اس بے مقصد شغل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کوئی کارآمد بات ہوتی یامعلومات تو چلیں بندہ صبر کر لیتا ہے۔ نیٹ کی دنیا کی یہ بے شرم ڈائن حدود و قیود سے آزاد ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی ایسی باتیں اشارے کنائے جملے ایکشن کر کے دکھائے جاتے ہیں کہ شرم کو بھی شرم آنے لگتی ہے۔ مگر لگتا ہے شرم و حیا ہماری نئی نسل سے روٹھ کر کہیں دور جا بس گئی ہے۔ اب کسی نے عدالت میں درخواست دی ہے تو وہ بھی عدالتی بنچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے التوا کا شکار ہے تو ایسے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ یہ ٹک ٹاک کی وبا کتنے دن اور ادھم مچاتی پھرے گی۔ اس سے پہلے یہ مزید نئی نسل کی گمراہی کی راہ ہموار کر ے اسے قابو میں لانا ہو گا۔ فی الحال تو لاہور کے ’’ٹکا ٹک‘‘ ہی کافی ہیں جن کا ذکر ہوتے ہی ذہن فوراً لکشمی چوک کی طرف چلا جاتا ہے جہاں رات ہوتے ہی توے پر ٹکاٹک کی صدائیں گونجتی ہیں قیمہ اور گردے کھانے کے شوقین حضرات کے قدم خودبخود ان آوازوں کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔
٭٭٭٭
مولانا کے دھرنے میں شادی کا اعلان کروں گا۔ جمشید دستی
کر لو گل تے سن لو بات۔ جہاں دیدہ جمشید دستی کو تو لوگ شادی شدہ اور کئی عدد بچوں کا باپ سمجھتے تھے۔ اب اس خبر کے بعد تو دستی جی کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ابھی سے جھومر ڈالنے کی پریکٹس کریں۔ کیوں کہ معلوم نہیں بیاہ کس سے ہو گا۔ ویسے بھی دھرنے کے سیزن میں اگر جمشید دستی مارچ میں شریک ہوئے تو کیا سارا مجمع باراتی ہو گا یا دستی جی نکاح پڑھوا کر نکل آئیں گے۔ بہرحال اب ان کے بیان سے پتہ چلا ہے کہ وہ شادی شدہ یا رنڈوے نہیں خالصتاً کنوارے ہیں اور ابھی ان کے سر پر شادی کا سہرا سجنا ہے۔ سہرے کے پھول کھلنے ہیں۔ دستی جی فرماتے ہیں کہ وہ جب بھی شادی کی تیاریاں شروع کرتے ہیں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اب اس رکاوٹ سے کیا مراد ہے وہی بتا سکتے ہیں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کو شیخ رشید کہنے لگے ہیں۔ شیخ جی بھی سیاسی میدان کے سدابہار کنوارے ہیں۔ اب پتہ چلا دستی جی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں انہوں نے شادی کا اعلان کرنا ہے۔ کیا مولانا کے پاس ٹائم ہو گا اس کام کے لئے۔ ان کو سٹیج پر آنے کا موقع دیں۔ اب ان کے اس بیان پر خاصہ ذومعنی ردعمل بھی آ سکتا ہے۔ دھرنے کے بارے میں تو پہلے ہی منچلے دوست احباب نجانے کون کون سی ہوائیاں اڑا رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے وہ جن سے نکاح کر رہے ہیں ان کے بارے میں بھی عوام کو آگاہ کریں تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
٭٭٭٭