وزیر اعلی پنجاب وچیئرمین پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی خدمت میں
مکرمی :تعلیم اور نظام تعلیم بہت وسیع موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے لیکن سر دست موضوع اہم شعبہ فنی اور تجارتی تعلیم ہے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا، سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت و تجارت کا جہاں ہے۔ آج دنیا میں ہونے والی تمام ترقی کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت ہے۔ ٹیکنیکل اور تجارتی تعلیم وقت کی اہم ترین ضرورت ہے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے قطع نظر آج میں صوبہ پنجاب میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حوالے سے کچھ مسائل اور معاملات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں اور ان کی طرف صاحبان اختیار اور ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ تعلیم کے اس اہم شعبے میں بہتری کے لئے بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔پنجاب کے تقریبا تمام ٹیکنیکل اداروں کا الحاق پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن لاہور سے ہے نہ صرف پنجاب بلکہ فیڈرل اور شمالی علاقہ جات کے ٹیکنیکل اداروںکے امتحانات اسی بورڈ کے تحت ہوتے ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن میں پالی ٹیکنیک کالجز، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس اور کامرس کالجز کے علاوہ آباد کے کئی ادارے بھی شامل ہیں۔ ان اداروں کی کارکردگی اور تعلیمی معیار بہت اچھا تھا اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن حال ہی میں پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن نے امتحان میں کامیابی کا معیار 33% کردیا ہے جو پہلے 40% تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کامیابی کا معیار 40% سے بڑھا کر 45% یا 50% کیا جاتا تاکہ طلباء محنت سے امتحان پاس کرتے اور تعلیم کا معیار بھی بلند ہوتا لیکن معیار کم کرنے سے تعلیم کا مقصد وہی ہو جائے گا جو لارڈ میکالے نے مسلمانوں کو پسماندہ اور غلام رکھنے کے لئے تیار کیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ امتحانات میں پرچوں کا نمونہ ( پیٹرن) ایسا بنا دیا گیا ہے کہ طالب علم مختصر جوابات، معروضی سوالات اور نصاب کا مخصوص حصہ تیار کر کے امتحان پاس کر لیتا ہے۔ اگر امتحان میں کامیابی کامعیار 50% سے 55% کردیا جاتا اور پرچے اس طرح مرتب کئے جاتے کہ طالب علم کو پورا نصاب تفصیل سے پڑھنا پڑتا تو اس سے تعلیمی معیار بلند ہو سکتا تھا لیکن پہلے سے پست ، پسماندہ اور فرسودہ تعلیمی نظام اور امتحانی طریقہ کار کو مزید پستی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے جو احباب فکر و دانش کے لئے لمحہ فکر ہے۔ آج فنی اور کامرس کے تعلیمی اداروں سے ہزاروں طالب علم ڈگریاں، ڈپلومے اور سرٹیفکیٹ لے کر نکل رہے ہیں لیکن ناقص امتحانی طریقہ کار اور پست تعلیمی معیار کی وجہ سے عملی زندگی میں ان کی قابلیت اور ہنروری بہت کم ہوتی ہے اور یہ ملک کی تعمیر و ترقی میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ پنجاب بورڈ آف ٹیکنکل ایجوکیشن کے ارباب اختیار کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہم نے ایسے ہنر مند اور پیشہ ورانہ امور کے ماہر طالب علم تیار کرنے ہیں جو انتہا ئی اعلی قابلیت اور بلند تعلیمی معیار کے حامل ہوں۔ آج موٹر وے بنا نی ہو یا ریلوے لائن بچھا نی ہو۔ ڈیم تعمیر کرنے ہوں یا بجلی کے منصوبوں پر کام کرنا ہو، ہم کوریا ، چین اور جاپان سے انجنئر اور ماہرین بلواتے ہیں اس کی وجہ وہی ہے کہ ہم اپنے ملک میں اس معیار کے فنی ماہرین اور معاشی اور تجارتی منصوبہ ساز تیار نہیں کررہے جو اپنے ملک میں اعلی سطح کے فنی ، کاروباری، تجارتی، اور تعمیراتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں ۔(ڈاکٹر سید محمد ابرار شاہ بخاری ،سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی )